اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے مختلف بینچوں نے جمعرات کو اہم مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے کئی سنگین جرائم، پولیس کے طرزِ عمل اور انسانی حقوق سے متعلق معاملات پر سخت ریمارکس دیے۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ کا نیا عدالتی سال 8 ستمبر سے شروع ہوگا
عدالت نے بعض ملزمان کی ضمانتیں مسترد کیں، بعض مقدمات میں ریکارڈ طلب کیا، جبکہ خیبر پختونخوا پولیس کی کارروائی پر برہمی کا اظہار کیا۔
17 کروڑ فراڈ کیس
سپریم کورٹ نے 17 کروڑ روپے کے فراڈ کے مرکزی ملزم زوہیب الرحمن کے خلاف مکمل ریکارڈ طلب کرلیا۔
عدالت نے سوال اٹھایا کہ اگر ملزم دبئی میں ملازمت کرتا ہے تو اس کے نام پر جعلی کمپنی اور بینک اکاؤنٹ کیسے کھل گیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ زوہیب نے لوگوں کو سعودی عرب بھیجنے کا جھانسہ دے کر چھ سو افراد سے خطیر رقم بٹوری۔
جعلی شناختی کارڈ پر 40 کنال اراضی ہتھیانے کا کیس
عدالت نے ملزم ظاہر حسین کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ وہ ایک ’فنکار لگتا ہے‘۔
ملزم پر الزام ہے کہ اس نے ایک مرحوم خاتون الفت بی بی کے نام پر جعلی شناختی کارڈ بنا کر 40 کنال زمین اپنے نام منتقل کرائی۔
بہن پر قاتلانہ حملہ
سپریم کورٹ نے اپنی سگی بہن پر فائرنگ کرنے والے ملزم عارف کی ضمانت دینے سے انکار کردیا۔
جسٹس شہزاد ملک نے کہا کہ خاتون کو سینے اور پیٹ پر گولیاں لگیں، اور بہن بھائی کو جھوٹا الزام کیوں دیتی۔ عدالت نے اسے سنگین جرم قرار دیا۔
کم سن لڑکی سے زیادتی
عدالت نے 14 سالہ لڑکی سے زیادتی کے دو ملزمان کی اپیلیں خارج کرتے ہوئے عمر قید کی سزا برقرار رکھی۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ بار کی عدالتی اصلاحات کے لیے تجاویز کیا ہیں؟
جسٹس شہزاد ملک نے قرار دیا کہ ’اگر رضامندی سے بھی کچھ ہوا تب بھی یہ زیادتی کے زمرے میں آتا ہے‘۔ ڈی این اے رپورٹ ملزمان سے میچ کرگئی تھی۔
سوات پولیس کا متنازع اقدام
سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا پولیس کی جانب سے ریڑھ کی ہڈی کے آپریشن شدہ مریض کو اسپتال سے گرفتار کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال اٹھایا کہ کیا پولیس نے ڈاکٹر یا ہسپتال سے اجازت لی؟ عدالت نے قرار دیا کہ ملزم چاہے برا انسان ہو لیکن اس کے بھی کچھ حقوق ہیں۔
کیس کی مزید سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی گئی۔