شہر کراچی کئی دہائیوں سے بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ یہ شہر پاکستان کا معاشی حب ہونے کے باوجود ایسے مسائل میں ڈوبا ہوا ہے جن سے روزانہ کی بنیاد پر عام شہری شدید متاثر ہورہے ہیں۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ قیمتی جانیں گنواں رہے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔
جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کراچی سے رواں برس 26 جولائی کو مستقبل کا ڈاکٹر محتسم محمود اپنی کلاسز لینے کے بعد موٹر سائیکل پر، اردو بازار سے ہوتا ہوا گھر کے لیے روانہ ہوا لیکن راستے ہی میں ایک لوڈڈ ٹینکر جس میں چربی تھی بریک نہ لگنے کی وجہ سے اس نوجوان سے ٹکرا گیا۔ سڑک پر بے انتہا ٹریفک اور سڑک بہتر نہ ہونے کے باعث یہ نوجوان اپنی زندگی کی بازی ہار گیا۔
اس کے اہل خانہ آج بھی اسے یاد کرتے ہیں، کیوں کہ ماں باپ کو اپنی اولاد کے ایسے چلے جانے کا دکھ ہوتا ہے۔ اور معاشرہ ایک ڈاکٹر سے محروم ہوگیا۔ یہ واقعات معمول بن چکے ہیں۔ شاید شہری ایسے واقعات دیکھ دیکھ کر عادی ہو چکے ہیں۔ کچھ دیر کا احتجاج اور پھر نئے حادثے کا انتظار۔ سڑکیں بن نہیں رہیں، جو بن رہی ہیں وہ محدود مدت کے لیے ہوتی ہیں جیسا کہ جہانگیر روڈ کی مثال سب کے سامنے ہے۔
کہیں حدود کا تعین کا مسئلہ تو کہیں اختیارات کا رونا دھونا، سب کچھ پورا تو فنڈز کی کمی کی گردان۔ شہری اس حوالے سے کہتے ہیں کہ کوئی سڑک وفاق کو بنانی ہے، کسی کو کنٹونمنٹ کے ذمہ لگا دیا گیا، کسی کو ٹاؤن، تو کوئی کے ایم سی نے بنانی ہے۔ اتنے سارے ادارے ہیں لیکن نہ کوئی سڑک بن رہی ہے، نہ کوئی گلی بن رہی ہے۔ بیماریاں ہی بیماریاں ہیں اور حادثات ہی حادثات ہیں۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ اب انہیں کسی سے کوئی امید ہے نہ ہی توقع۔ ایک شہری کا تو یہ کہنا تھا کہ ہم ان سڑکوں پر سفر کرنے کو چیلنج کی طرح لیتے ہیں۔ صبح گھر سے نکلتے ہیں، دھول مٹی، گٹر کا پانی سب کچھ پہلی نظر میں ہی مل جاتا ہے۔ اس کے بعد علاقے کی چھوٹی سڑکیں ہوں یا بڑی شاہراہیں، ان پر موجود گڑھوں سے خود کو بچاتے بچاتے، اگر بچ کر گھر لوٹ آئیں تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔
کراچی میں مسائل کے انبار ہیں۔بہت سی سڑکیں کم و بیش 30 برس سے یا تو بنی نہیں اور اگر بنیں تو محدود مدت کے لیے۔ بات جب بھی ہوتی ہے تو کراچی کی اہم شاہراہوں کی ہوتی ہے۔ جو سڑکیں آبادیوں کے بیچ سے گزرتی ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بلکہ اب تو یوں لگتا ہے جیسے یہ جنگلات میں بنے قدرتی واکنگ ٹریکس ہیں، لیکن افسوس ناک صورت حال تو یہ ہے کہ اگر ہم کراچی کی اہم شاہراہوں شارع فیصل یا آئی آئی چندریگر کی بات کریں تو ان سڑکوں پر بھی گڑھے ملیں گے، مین ہولز کے موٹر سائیکل پر ڈھکن ملیں گے جب ان سڑکوں کا یہ حال ہے تو شہر کے باقی مسائل کا اندازہ آپ خود لگا لیں کہ کیا ہوں گے۔
کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں اگر کوئی صبح کام پر نکلے، واپس گھر آنے پر شاید اسے گھر والے بھی پہچان نہ پائیں کیوں کہ دھول اڑاتی، کچی سڑکیں، انسان تو انسان یہاں گزرنے والی ہر مخلوق کا نقشہ بدل کر رکھ دے۔
شہر قائد میں آئے روز خبر ملتی ہے کہ فلاں علاقے میں ٹریفک حادثے سے، باپ بیٹی انتقال کر گئے، کام سے گھر لوٹنے والا انتقال کر گیا، کالج یونیورسٹی والا یا والی ٹریفک حادثے کا شکار ہو گئی، وجہ خراب سڑک پر اچانک بریک لگائی، کسی کو گاڑی لگی، کسی کو نہ لگی۔ مارنے والا بچانے کی کوشش کرتا رہا، مرنے والا گڑھے سے خود کو بچانے کی کوشش کرتا رہا لیکن نتیجہ موت کی صورت میں سامنے آیا۔













