4 ججوں نے سپریم کورٹ رولز کی سرکولیشن کے ذریعے منظوری غیر قانونی قرار دے دی

پیر 8 ستمبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے 4 ججز نے سپریم کورٹ رولز 2025 کی سرکولیشن کے ذریعے منظوری پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھا ہے۔

مذکورہ 4 ججوں نے سپریم کورٹ رولز پر تجاویز پر غوروخوض کی غرض سے بلائے گئے فل کورٹ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے سے بھی آگاہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس آدھا گھنٹے بعد اختتام پذیر

خط پرجسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عائشہ ملک کے دستخط ہیں۔

ججز نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ رولز کبھی بھی فل کورٹ کے سامنے پیش یا منظور نہیں کیے گئے، جو محض ایک تکنیکی معاملہ نہیں بلکہ آئینی اور قانونی حیثیت کا بنیادی سوال ہے۔

ان کے مطابق آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو بحیثیت ادارہ حاصل ہے اور ان کی منظوری اجتماعی طور پر ہونی چاہیے تھی۔

عدالت عظمیٰ کے 4 ججز نے مؤقف اختیار کیا کہ چیف جسٹس نے یکطرفہ طور پر سرکولیشن کے ذریعے رولز کی منظوری دی، جو کہ نہ صرف طریقہ کار بلکہ مواد کے لحاظ سے بھی غیر قانونی ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ رولز 1980 منسوخ، نئے قواعد 6 اگست سے نافذ

ان کا کہنا ہے کہ سرکولیشن معمولی نوعیت کے انتظامی امور کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جبکہ عدالت کے آئینی ڈھانچے اور طریقہ کار کو متعین کرنے کے لیے فل کورٹ کا باضابطہ اجلاس ناگزیر ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ اگر رولز 9 اگست 2025 کو منظور اور گزٹ میں شائع ہو چکے تھے، تو پھر 12 اگست کو ان پر تجاویز کیوں مانگی گئیں اور اب فل کورٹ اجلاس بلانے کا کیا جواز ہے۔

ججز کے مطابق یہ سلسلہ دراصل اس امر کا اعتراف ہے کہ رولز پر اجتماعی غور و خوض ضروری تھا لیکن منظوری کے بعد فل کورٹ کو محض رسمی حیثیت دی جارہی ہے۔

خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر فل کورٹ سے پہلے ہی رولز کو ’منظور شدہ‘ قرار دیا جا چکا ہے تو اجلاس محض خانہ پُری اور جواز تراشی کے مترادف ہوگا، جس سے ادارے کی اجتماعی حیثیت مجروح ہوگی۔

ججز نے مطالبہ کیا کہ رولز کو ازسرِنو مکمل طور پر فل کورٹ کے سامنے رکھا جائے اور شفاف بحث کے بعد ہی ان کی منظوری دی جائے۔ بصورت دیگر وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔

مزید پڑھیں:سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد میں ایک بار پھر اضافہ

مزید برآں ججز نے زور دیا کہ فل کورٹ کے اجلاس کی کارروائی عوام کے سامنے لائی جائے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ سپریم کورٹ کے اندرونی اصول کس طرح طے کیے گئے۔

ان کے مطابق شفافیت ہی عدلیہ کی ساکھ اور عوامی اعتماد کی بنیاد ہے، اور اس ضمن میں اجلاس کے منٹ پبلک کرنا ادارے کی آئینی ساکھ کو مضبوط کرے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp