4 سال پہلے اپنی بچیوں کے بہتر مستقبل اور تعلیم کے لیے پاکستان آئی تھی، اور اب ہمیں واپس افغانستان بھیجا جا رہا ہے، جہاں تعلیم کے حوالے سے بچیوں کا مستقبل تاریک ہے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل سے تعلق رکھنے والی گل بیگم (نام تبدیل) اپنی 2 بیٹیوں کی تعلیم کے حوالے سے فکرمند ہیں۔ وہ کچھ سال قبل کابل پر افغان طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد اپنی 2 بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ پاکستان آئی تھیں تاکہ انہیں اچھی تعلیم دلا سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان ہائیکورٹ کا پی او آر کارڈ ہولڈر افغان مہاجرین کو واپسی کے لیے وقت دینے کا حکم
’اگر ہم اس وقت واپس چلے گئے تو میری بیٹیوں کی تعلیم ادھوری رہ جائے گی۔‘
گل بیگم کی ایک بیٹی نویں اور دوسری ساتویں جماعت میں پڑھتی ہے، جبکہ چھوٹا بیٹا چوتھی جماعت میں ہے۔
’بیوہ عورت کے لیے کابل جہنم ہے‘
گل بیگم کے مطابق ان کے شوہر کا دہشتگردی کے ایک واقعے میں انتقال ہوگیا تھا اور وہ کابل میں بیوٹی پارلر کا کاروبار کرکے زندگی گزار رہی تھیں۔ لیکن اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد حالات یکدم بدل گئے اور وہ بھی ہزاروں افغانوں کی طرح بچوں کے ساتھ جان بچا کر پاکستان پہنچ گئیں۔
گل بیگم پشاور کے مشہور بورڈ بازار، جو ’منی کابل‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے قریب کرائے کے ایک گھر میں مقیم ہیں اور اپنا بیوٹی پارلر کھول کر گزر بسر کررہی ہیں۔
پریشانی ان کے چہرے پر صاف نظر آ رہی ہے اور وہ کسی پر زیادہ بھروسہ بھی نہیں کر رہیں۔
’ابھی تک ہم یہاں سکون سے رہ رہے تھے، کوئی پریشانی نہیں تھی، لیکن اب چھاپوں اور پولیس کارروائی کا ڈر ہر وقت لگا رہتا ہے۔‘
گل بیگم نے بتایا کہ افغانستان ان کا ملک ہے، وہ واپس جائیں گی، لیکن اس وقت ان کے لیے حالات سازگار نہیں۔
’میرا کوئی مرد سرپرست نہیں، کام کی اجازت نہیں، بچیاں اسکول نہیں جا سکتیں۔ ایسی صورت میں افغانستان اس وقت میرے لیے جہنم سے کم نہیں۔‘
’واپسی شروع ہے لیکن کوئی سختی نہیں‘
صرف گل بیگم ہی نہیں بلکہ پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دیگر صوبوں کی نسبت خیبر پختونخوا سے رضاکارانہ واپسی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔
27 سالہ عدنان خان بورڈ بازار میں سبزی فروخت کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی پیدائش بھی پاکستان میں ہوئی ہے اور ان کی یہاں رشتہ داریاں بھی ہیں، اور ابھی تک انہوں نے واپسی کا کوئی ارادہ بھی نہیں کیا۔
’میں ایک دو بار افغانستان گیا ہوں لیکن میرا واپس جانے کا دل نہیں کرتا‘
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے جاننے والے اور دوست کافی تعداد میں واپس گئے ہیں، اور واپسی کا عمل رضاکارانہ ہے، ابھی تک کوئی سختی یا کارروائی نہیں ہو رہی۔ ان کے مطابق پولیس والے انہیں واپس جانے کے لیے کہتے ہیں لیکن کریک ڈاؤن یا پکڑ دھکڑ نہیں ہو رہی، جس سے وہ بھی مطمئن ہیں۔
’پنجاب اور سندھ سے لوگ واپس جا رہے ہیں لیکن خیبرپختونخوا سے واپسی کم ہو رہی ہے، جس کی بڑی وجہ پولیس اور حکومت کی جانب سے نرمی ہے۔‘
عدنان نے بتایا کہ کاروباری لوگ ویزا لے کر آ رہے ہیں لیکن مشکلات غریب طبقے کے لیے ہیں۔
سمیع اللہ کا پشاور میں ریسٹورنٹ کا کاروبار ہے اور ان کے ساتھ 20 سے زیادہ افغان شہری کام کرتے ہیں۔ سمیع اللہ خود پاکستانی ویزا پر واپس آئے ہیں جبکہ انہیں اپنے کاریگروں کی فکر ہے۔
’ہمارا ذائقہ افغانیوں کی وجہ سے ہے، اور اگر یہ واپس گئے تو کاروبار پر اثر پڑے گا۔‘
اب تک کتنے افغان باشندے واپس گئے ہیں؟
پاکستان کی جانب سے افغان باشندوں کو 31 اگست تک رضاکارانہ واپسی کی ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد ملک میں بغیر ویزا رہائش غیر قانونی ہے، اور 4 دہائیوں سے رہائش پذیر افغان باشندوں کی واپسی کا تیسرا مرحلہ جو یکم اپریل 2025 سے شروع ہوا، بدستور جاری ہے۔
محکمہ داخلہ و قبائلی امور خیبر پختونخوا واپس جانے والوں کی نگرانی کرتا ہے اور ان کی سہولت کے لیے ضلع خیبر میں ٹرانزٹ پوائنٹ بھی قائم ہے۔
محکمہ داخلہ قبائلی امور خیبر پختونخوا کی رپورٹ کے مطابق ستمبر 2023 سے 7 ستمبر تک 6 لاکھ 5 ہزار 246 غیر ملکی باشندوں کو افغانستان بھیجا گیا، جن میں 5 لاکھ 96 ہزار سے زیادہ غیر قانونی تھے جو کسی قسم کی دستاویز کے بغیر رہائش پذیر تھے۔ جبکہ یکم اپریل 2025 سے 7 ستمبر 2025 تک 47 ہزار 953 افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز واپس گئے۔
رپورٹ میں لکھا ہے کہ تیسرے مرحلے میں اب تک یو این ایچ سی آر سے رجسٹرڈ پروف آف رجسٹریشن کارڈ ہولڈرز میں سے 86 ہزار 979 رضاکارانہ طور پر واپس اپنے ملک گئے۔
محکمہ داخلہ کی رپورٹ کے مطابق واپسی کا عمل جاری ہے لیکن واپس جانے والوں میں زیادہ تعداد غیر قانونی مقیم افراد کی ہے جو پولیس کارروائیوں میں گرفتاری کے بعد بے دخل کیے گئے۔
خیبر پختونخوا واپسی کم کیوں اور کے پی کا کیا مؤقف ہے؟
خیبرپختونخوا حکومت افغان باشندوں کی جلد واپسی کے حق میں نہیں ہے۔ صوبائی حکومت کا مؤقف ہے کہ افغان باشندوں کو مزید وقت دینا چاہیے اور واپسی باعزت اور رضاکارانہ ہونی چاہیے۔
خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کے مطابق افغانستان اس وقت مشکل حالات میں ہے اور زلزلے سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ بیرسٹر سیف نے وفاق پر زور دیا کہ ان حالات میں افغان باشندوں کو مزید وقت دیا جائے۔
’افغانستان ہمارا پڑوسی مسلم ملک ہے اور قدرتی آفات کی وجہ سے مہاجرین کو سنبھالنا ان کے لیے مشکل ہے، اس لیے مہاجرین کا انخلا فوری طور پر روکنا چاہیے۔‘
تجزیہ کاروں اور صحافیوں کے مطابق جس تعداد میں واپسی پنجاب، سندھ اور اسلام آباد سے ہو رہی ہے، اس کی نسبت خیبرپختونخوا خصوصاً پشاور سے نظر نہیں آ رہی۔
علی اکبر سینیئر صحافی ہیں اور افغان امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق اس بار پشاور سے باقاعدہ واپسی کا عمل شروع نہیں ہوا ہے، جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں مہاجرین کے لیے نرم گوشہ موجود ہے۔
’اس بار لوگ جانے کے لیے تیار ہیں، انہیں اندازہ ہے کہ جانا ہے، لیکن واپسی نہیں کر رہے۔‘
علی اکبر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بھی اکثریت پشتونوں کی ہے اور کے پی والے بھی اسی وجہ سے ان کا خیال رکھتے ہیں۔
’پشاور میں کافی بڑی تعداد میں افغان باشندے ہیں لیکن وہ واپس نہیں جا رہے۔ ان کا کاروبار، گھر اور دیگر جائیدادیں بھی ہیں۔ شاید کچھ سختی شروع ہو جائے تو اس عمل میں تیزی آ جائے۔‘
گھر گھر جا کر واپسی کی اطلاع دے رہے ہیں، سی سی پی او پشاور
سی سی پی او پشاور ڈاکٹر میاں سعید کے مطابق افغان باشندوں کی واپسی کے لیے تمام تیاریاں مکمل ہیں اور پولیس دیگر اداروں سے مل کر آگاہی دے رہی ہے۔
’کے پی میں افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے مختلف کمیٹیاں قائم ہیں جن میں پولیس افسران، ضلعی انتظامیہ اور دیگر اداروں کے افسران شامل ہیں جو افغان باشندوں کو واپس جانے پر راضی کرنے کے ساتھ آگاہی بھی دے رہے ہیں۔‘
سی سی پی او نے بتایا کہ گھر گھر جا کر بھی بتایا جا رہا ہے کہ ان کی رہائش کی مدت ختم ہوگئی ہے اور جن کے پاس قانونی دستاویز یا ویزا نہ ہو وہ واپس جائیں۔
’یو این ایچ سی آر کا تشویش کا اظہار‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) نے پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ رکھنے والے افغان پناہ گزینوں کو واپسی کے احکامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یو این ایچ سی آر کو خاص طور پر ان خواتین اور بچیوں کے حوالے سے تشویش ہے جنہیں ایسے ملک واپس بھیجنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جہاں ان کے انسانی حقوق خطرے میں ہیں۔
’اسی طرح دیگر گروہوں کے حوالے سے بھی تشویش موجود ہے، جو خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ ہم حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ افغان باشندوں کی افغانستان واپسی کو رضاکارانہ، محفوظ اور باوقار بنایا جائے۔‘
یو این ایچ سی آر کے مطابق اس سال ہمسایہ ممالک سے افغان باشندوں کی بڑے پیمانے پر واپسی نے بنیادی سہولیات، رہائش اور روزگار کے مواقع پر بے پناہ دباؤ ڈالا ہے اور میزبان برادری کو بھی متاثر کیا ہے، جس سے افغانستان میں پہلے سے جاری سنگین انسانی بحران مزید بگڑ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان مہاجرین کی باعزت واپسی، اپنی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہیں ہونے دینگے، پاکستان افغانستان کا اتفاق
بڑی تعداد میں اور جلد بازی میں کی گئی واپسی سے تحفظ کی ضروریات میں اضافہ ہوتا ہے اور افغانستان سمیت پورے خطے میں عدم استحکام کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جس میں مزید ہجرت کا سلسلہ بھی شامل ہے۔
بتایا گیا کہ اس سال اب تک 21 لاکھ سے زیادہ افغان باشندے افغانستان واپس جا چکے ہیں یا جبراً واپس بھیجے گئے ہیں، جن میں 3 لاکھ 52 ہزار صرف پاکستان سے شامل ہیں۔