غزہ کے لیے نکلنے والے عالمی صمود فلوٹیلا نے منگل کو کہا ہے کہ اس کی مرکزی کشتیوں میں سے ایک کو تیونس کے پانیوں میں ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا، تاہم اس پر سوار تمام مسافراورعملہ محفوظ رہا۔
بیان کے مطابق پرتگالی پرچم بردار کشتی کو، جس پر فلوٹیلا کی اسٹیئرنگ کمیٹی موجود تھی، آگ لگنے سے مین ڈیک اور زیرِ عرشہ ذخیرہ گاہ میں نقصان پہنچا۔
یہ بھی پڑھیں: انسانی تاریخ کا سب سے بڑا مشن، گریٹا تھنبرگ غزہ کا اسرائیلی محاصرہ توڑنے نکل کھڑی ہوئیں
تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق تیونس کی نیشنل گارڈ کے ترجمان نے ڈرون حملے کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ابتدائی معائنے میں دھماکے کا منبع کشتی کے اندر سے ظاہر ہوتا ہے۔
Breaking news;
Here is the security camera footage from the Family vessel of the Sumud Flotilla, stationing just outside Tunis port. So:
1. Sound of something that the crew identified as a drone.
2. Crews sounds the alarm and calls for help.
3. Explosion.
Draw your conclusions. pic.twitter.com/HmkFG7yaEt— Francesca Albanese, UN Special Rapporteur oPt (@FranceskAlbs) September 8, 2025
یہ فلوٹیلا ایک بین الاقوامی مہم ہے جو 44 ممالک کے نمائندوں کی حمایت سے عام شہری کشتیوں کے ذریعے غزہ میں انسانی ہمدردی کی امداد پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
فلوٹیلا میں دنیا کی کئی نمایاں شخصیات شریک ہیں، جن میں ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ اور بارسلونا کی سابق میئر آدا کولو شامل ہیں، جب کہ اٹلی کی پارلیمنٹ کے 4 ارکان بھی اس مہم میں شمولیت کے لیے تیار ہیں۔
حملے کے بعد درجنوں افراد تیونس کی سیدی بو سعید بندرگاہ کے باہر جمع ہوگئے، جہاں فلوٹیلا کی کشتیاں لنگر انداز تھیں۔ انہوں نے فلسطینی پرچم لہرائے اور ’فری فلسطین‘ کے نعرے لگائے۔
Speaking to Middle East Eye, Miguel Duarte, an activist who was on board the Family Boat, the main vessel of the Global Sumud Flotilla, said that a drone hovered above their heads before dropping an explosive on the foredeck of the ship pic.twitter.com/ql7QOt86Ly
— Middle East Eye (@MiddleEastEye) September 9, 2025
اسرائیل نے 2007 میں حماس کے غزہ پر قبضے کے بعد ساحلی علاقے پر بحری ناکہ بندی کر رکھی ہے، جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ یہ اسلحہ حماس تک پہنچنے سے روکنے کے لیے ہے۔
یہ ناکہ بندی مختلف جنگوں کے دوران بھی برقرار رہی ہے، بشمول موجودہ جنگ، جو اکتوبر 2023 میں حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے سے شروع ہوئی تھی۔ اس حملے میں اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق 1,200 افراد ہلاک اور تقریباً 250 یرغمال بنائے گئے تھے۔
اس کے جواب میں اسرائیلی فوجی کارروائی سے غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 64 ہزار سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں، جبکہ عالمی ادارے بھوک کے حوالے سے خبردار کر رہے ہیں کہ علاقے کے کچھ حصے قحط کا شکار ہیں۔
مزید پڑھیں: گیم آف تھرونز کے اداکار کا کشتی پر غزہ روانہ ہونے سے قبل شہید فلسطینی بچی کو جذباتی خراج عقیدت
اسرائیل نے مارچ 2024 کے اوائل میں غزہ کو خشکی کے راستے بھی مکمل طور پر بند کر دیا تھا اور 3 ماہ تک کوئی سامان اندر جانے کی اجازت نہیں دی، یہ کہہ کر کہ حماس امداد کو ہتھیار بنا رہی ہے۔
صمود فلوٹیلا نے مزید کہا کہ حملے کی تحقیقات جاری ہیں اور نتائج دستیاب ہوتے ہی شائع کیے جائیں گے۔
’ہمارے مشن کو خوفزدہ کرنے اور سبوتاژ کرنے کی کوششیں ہمیں روک نہیں سکتیں۔ غزہ کا محاصرہ توڑنے اور اس کے عوام سے یکجہتی کے ہمارے پرامن مشن کو ہم عزم اور ثابت قدمی کے ساتھ جاری رکھیں گے۔‘














