جنگلی جانور عموماً انسانوں کو دانستہ نقصان نہیں پہنچاتے لیکن ایک بھورے ریچھ کا محض ایک پنجہ بھی گہری چوٹ دے سکتا ہے خواہ اس کا ارادہ نقصان پہنچانا نہ بھی ہو۔
یہ بھی پڑھیں: گلوکارہ قرۃ العین بلوچ ریچھ کے حملے میں زخمی، اسپتال منتقل
روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق معروف وائلڈ لائف ماہر وقار ذکریا نے دیوسائی میں گلوکارہ قرۃ العین بلوچ (کیو بی) پر ریچھ کے حالیہ حملے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ پاکستانی براؤن ریچھ امریکی الاسکن ریچھ جتنا بڑا نہیں ہوتا لیکن اس کے تقریباً 2 انچ لمبے ناخن نہایت تیز دھار اور گوشت چیرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ممکن ہے ریچھ کو لگا ہو کہ قریب میں خوراک ہے اور گلوکارہ کی چیخ و پکار نے اس کے جارحانہ رویے کو بڑھا دیا ہو بہرحال یہ ایک نایاب اور انفرادی واقعہ ہے۔
یہ ہونا ہی تھا، امریکی ماہر بشریات
کنکٹیکٹ امریکا کے ٹرینٹی کالج میں بشریات کے پروفیسر ڈاکٹر شفق حسین جو گلگت بلتستان میں برفانی چیتے کے تحفظ پر کام کر چکے ہیں نے اس واقعے پر زیادہ حیرت کا اظہار نہیں کیا۔ ان کے بقول یہ ایک افسوسناک واقعہ ضرور ہے لیکن یہ ہونا ہی تھا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ جب تک دیوسائی جیسے حساس علاقوں میں ’گلیمپنگ‘ (پرآسائش کیمپنگ) جاری رہے گی اور انسان خوراک جنگلی جانوروں کے قریب چھوڑتے رہیں گے ایسے واقعات کا سلسلہ بڑھتا رہے گا۔
’خاموشی بہتر ردعمل ہے‘
وقار ذکریا کا کہنا ہے کہ ایسے موقعے پر چیخنے کے بجائے ساکت رہنا بہتر ہوتا ہے اگرچہ یہ ایسی صورتحال میں پھنسے کسی شخص کے بارے میں یہ کہنا غیر حقیقی ہے۔
مزید پڑھیے: پیٹو بھالو باز نہ آیا، بے تحاشہ پھل کھانے پر پھر اسپتال میں داخل
قرۃ العین بلوچ نے اس حوالے سے تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے اپنی شفایابی کے عمل کے لیے پرائیویسی کی درخواست کی۔
انسانوں کی مداخلت، جنگلی جانوروں کی فطرت میں تبدیلی
وقار کے مطابق سوشل میڈیا، سیلفیوں اور انسانی خوراک کی دستیابی جیسے عوامل کی وجہ سے جنگلی جانور اپنی قدرتی شرم کھو کر انسانی آبادیوں کے قریب آنے لگے ہیں۔
’ہم نے ان کے علاقوں پر قبضہ کیا ہے، انہوں نے نہیں‘
انہوں نے زور دیا کہ جنگلی جانور کسی وجہ سے حملہ کرتے ہیں جبکہ انسان اکثر بغیر کسی وجہ کے ان کو مار دیتے ہیں۔
دیوسائی کا ماحولیاتی دباؤ بڑھ رہا ہے
گلگت بلتستان کے اسکردو اور استور کے درمیان 3،600 مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے دیوسائی کے میدان کو سنہ 1993 میں نیشنل پارک قرار دیا گیا تھا۔ یہاں براؤن ریچھ، مارموٹ، بھیڑیے، لومڑیاں، پرندوں کی درجنوں اقسام اور دلکش پھولوں کی وافر اقسام پائی جاتی ہیں۔
وقار زکریا، جو ہمالیائی وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے شریک بانی ہیں، 3 دہائیوں سے براؤن ریچھ پر تحقیق کر رہے ہیں اور عالمی سطح پر ماہرین کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔
ان کے مطابق سنہ 1993 میں روزانہ تقریباً 20 گاڑیاں پارک میں آتی تھیں۔ اب گرمیوں کے سیزن میں یہ تعداد 500 تک پہنچ چکی ہے۔
مزید پڑھیں: بھالو ٹرک سے سورج مکھی کے بیجوں کا تھیلا لے اڑا
انہوں نے خبردار کیا کہ انسانوں نے نہ صرف جنگلی علاقوں پر قبضہ کیا ہے بلکہ ان کے قدرتی ماحول کو بھی بگاڑ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگلات کی کٹائی، مویشیوں کی غیر محتاط چراگاہوں میں موجودگی اور بے قابو سیاحت سب اس بگاڑ کا حصہ ہیں۔
’جنگلی جانوروں کو کبھی خوراک نہ دیں‘
وقار نے خاص طور پر زور دیا کہ سیاح دیوسائی میں مارموٹ جیسے جانوروں کو روزانہ خوراک دے رہے ہیں جو ایک خطرناک رجحان ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاحوں کو جنگلی جانوروں کو کبھی بھی خوراک نہیں دی جانی چاہیے اور یہ سب سے اہم اصول ہے جس کو ذہن میں ہمیشہ رکھنا چاہیے۔
مستقبل کا لائحہ عمل
ہمالیائی وائلڈ لائف فاؤنڈیشن نے ابتدا میں مشورہ دیا تھا کہ دیوسائی میں کوئی پکا راستہ یا مستقل تعمیر نہ کیا جائے تاکہ ناران، کاغان اور نتھیا گلی جیسے علاقوں میں ہونے والے ماحولیاتی نقصان سے بچا جا سکے۔
تاہم موجودہ ٹریفک کے پیش نظر، وقار کا کہنا ہے کہ کچھ پکی سڑکیں تعمیر کرنی ہوں گی تاکہ گاڑیاں مخصوص راستوں تک محدود رہیں، دھول اور شور کم ہو اور برفباری میں پھنسنے سے بچا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیے: بھالو بچوں کی ٹافیاں چٹ کرگیا، کدو بھی نہیں چھوڑا
انہوں نے بہتر کیمپنگ سائٹس، صفائی کا مناسب نظام، بہتر ریستوران اور عوامی آگاہی پر زور دیا تاکہ دیوسائی جیسے قیمتی قدرتی اثاثے کو محفوظ رکھا جا سکے۔














