پاکستانی ہوابازی کی صنعت ایک بار پھرامتحان سے گزر رہی ہے، امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن نے پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے حفاظتی معیارکا باضابطہ جائزہ شروع کردیا ہے۔
اس عمل کو پاکستان اور امریکا کے درمیان براہِ راست پروازوں کی بحالی کی طرف ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے، جو گزشتہ 5 برس سے معطل ہیں۔
یہ معطلی 2020 میں اس وقت ہوئی جب پی آئی اے کا ایئربس اے 320 کراچی میں حادثے کا شکار ہوا، جس میں تقریباً 100 جانیں ضائع ہو گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایئرسیفٹی فہرست سے اخراج پر پاکستان کا برطانیہ سے اظہار تشکر
تحقیقات میں پائلٹ اورایئر ٹریفک کنٹرول کی سنگین غلطیاں سامنے آئیں، بعد ازاں یہ انکشاف ہوا کہ پی آئی اے کے تقریباً ایک تہائی پائلٹ جعلی یا مشکوک لائسنس کے حامل تھے، یہی وہ لمحہ تھا جب عالمی اعتماد ٹوٹا اور یورپی یونین سمیت امریکا اور برطانیہ نے پاکستانی پروازیں بند کردیں۔
یوں تو یورپ اور برطانیہ نے اس سال کے آغاز میں پاکستان سے براہ راست پروازوں کی اجازت دے دی، مگر امریکا اب بھی محتاط ہے، اس پس منظر میں امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کی 5 رکنی ٹیم کراچی پہنچی ہے، جو پی سی اے اے کے قانونی ڈھانچے، آپریشنل نظام اور حفاظتی اقدامات کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے۔
ایوی ایشن تجزیہ کار عبید الرحمان عباسی کے مطابق امریکا کے ساتھ براہِ راست پروازوں کی بحالی محض ایک فضائی سہولت نہیں بلکہ یہ پاکستان کے ادارہ جاتی اعتبار کی بحالی ہوگی۔
مزید پڑھیں: سنگاپور ائیر لائن کا پاکستان سے فلائٹ آپریشنز کا فیصلہ
ان کے مطابق اگر فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کو مطمئن نہ کیا جا سکا تو یہ نہ صرف قومی ایئرلائن بلکہ پاکستان کی معیشت کے لیے بڑا نقصان ہوگا۔
’مجھے یقین ہے کہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی امریکی ٹیم سے کلین چٹ لینے میں کامیاب ہو جائے گی کیونکہ ان کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل نادر شفیع اور ان کی ٹیم محنت کررہے ہیں۔
عبید الرحمان عباسی کے مطابق سول ایوی ایشن اتھارٹی کے پاس قانونی پہلوؤں کا خیال رکھنے کے لیے کل وقتی ڈائریکٹر لا نہیں ہیں۔ ’پورے ریگولیٹری ونگ کو سنبھالنے کے لیے ان کے پاس ایک جونیئر لا آفیسر ہے، کچھ عرصہ قبل ڈائریکٹر کا عہدہ ختم کردیا گیا تھا۔‘
مزید پڑھیں: قومی ایئر لائن پی آئی اے کی نجکاری کب مکمل ہوگی؟
معاشی ماہرین کے مطابق امریکا کے ساتھ پروازوں کی بحالی سے پی آئی اے کو سالانہ کم از کم 300 سے 400 ملین ڈالر کا فائدہ ہو سکتا ہے۔
امریکا میں تقریباً 10 لاکھ پاکستانی تارکین وطن مقیم ہیں، جو اس وقت مشرقِ وسطیٰ یا یورپی ایئرلائنز پر انحصار کرتے ہیں، براہِ راست پروازیں نہ صرف انہیں سہولت فراہم بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ کریں گی۔
ہوابازی کے مبصرین کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی اصل کمزوری تکنیکی نہیں بلکہ ادارہ جاتی شفافیت ہے، جب تک میرٹ پر بھرتیاں، شفاف لائسنسنگ اور جدید تربیت کا نظام یقینی نہیں بنایا جاتا، دنیا کو مطمئن کرنا مشکل ہے۔
مزید پڑھیں: یورپ کے لیے پروازیں، پی آئی اے کا کڑا امتحان
دوسری جانب یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ امریکا اپنی فضائی حدود میں سیکیورٹی کے معاملے پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتا، اسی لیے ایف اے اے کا موجودہ جائزہ محض ایک رسمی کارروائی نہیں بلکہ پاکستان کے پورے فضائی ڈھانچے کا امتحان ہے۔
اگر پاکستان یہ اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہوگیا تو یہ نہ صرف پی آئی اے کے لیے مالی منفعت کا باعث ہوگا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بہتر بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔
لیکن اگر ایک بار پھر کوتاہی سامنے آئی تو یہ موقع برسوں کے لیے کھو سکتا ہے،کیا پاکستان اپنی ہوابازی کی صنعت کو وعدوں سے نہیں بلکہ عملی اصلاحات سے درست کر سکے گا؟ فیصلہ آئندہ چند ماہ میں ہو جائے گا۔