جنوبی کوریا کی ایک عدالت نے بدھ کے روز ایک ایسی خاتون کو بری کر دیا جسے 61 سال قبل اپنے اوپر ہونے والے جنسی تشدد کے خلاف دفاع کرنے پر مجرم قرار دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: 74 سالہ بوڑھے نے مخالف کو پھنسانے کے لیے خاتون جج کو انوکھا خط لکھ دیا
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس فیصلے کو ملک میں خواتین کے حقوق کے لیے ایک اہم کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔
61 برس پہلے کیا ہوا تھا؟
چوئی مال جا سنہ 1964 میں صرف 19 برس کی تھیں جب جنوبی شہر گم ہے میں ایک 21 سالہ نوجوان نے ان پر حملہ کیا۔ عدالتی ریکارڈ کے مطابق اس شخص نے چوئی کو زمین پر گرا کر ان کی ناک بند کر دی تھی اور زبردستی نازیبا حرکات کیں۔
اپنے دفاع میں چوئی نے حملہ آور کی زبان کا تقریباً 1.5 سینٹی میٹر حصہ کاٹ لیا تاکہ وہ خود کو بچا سکیں۔ اس وقت کے ایک متنازع عدالتی فیصلے میں حملہ آور کو صرف 6 ماہ کی معطل قید کی سزا دی گئی وہ بھی صرف زبردستی گھر میں داخل ہونے اور دھمکانے کے الزام میں جبکہ اس پر جنسی زیادتی کی کوشش کا الزام نہیں لگایا گیا۔
متاثرہ خاتون ہی سزاوار ٹھہریں
اس کے برعکس چوئی کو شدید جسمانی نقصان پہنچانے کے الزام میں 10 ماہ قید (معطل برائے 2 سال) کی سزا سنائی گئی۔
بہت دیر کی مہرباں۔۔۔
لیکن اب بوسان ڈسٹرکٹ کورٹ نے یہ سزا کالعدم قرار دے دی ہے اور کہا ہے کہ چوئی کا اقدام قانونی طور پر قابلِ جواز دفاع کے زمرے میں آتا ہے۔
عدالت نے اپنے بیان میں کہا کہ چوئی کا عمل اس وقت اپنی جسمانی سالمیت اور جنسی خودمختاری پر ہونے والے ناجائز حملے سے بچنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
مزید پڑھیے: شادی کے بعد غائب ہونے والا شوہر برسوں بعد انسٹاگرام ریلز پر دوسری عورت کے ساتھ نظر آگیا
یہ فیصلہ سنہ 1965 کی اس سزا کو ختم کرتا ہے جس میں عدالت نے کہا تھا کہ چوئی کا ردعمل قانونی دفاع کی معقول حد سے تجاوز تھا۔
خاتون منظر عام پر، حامی خوشی سے آبدیدہ
فیصلے کے بعد چوئی نے گلابی رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا اور ان کے حامیوں نے انہیں پھولوں کے گلدستے پیش کیے۔ خواتین کے حقوق کے کارکن اور ان کے حامی خوشی سے آبدیدہ ہو گئے۔
ان کے ہاتھوں میں ایک پلے کارڈ تھا جس پر لکھا تھا کہ ’چوئی مال جا نے یہ کر دکھایا‘۔
’میں متاثرہ تھی لیکن مجھ پر ہی مجرم کا ٹھپہ لگا‘
چوئی نے فیصلے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہ 61 سال پہلے ایک ایسی حالت میں جہاں میں کچھ بھی سمجھنے کے قابل نہ تھی ایک متاثرہ کو مجرم بنا دیا گیا اور مجھ پر ایک مجرم کا ٹھپہ لگ گیا۔
انہوں نے کہا کہ میں ان متاثرین کے لیے امید کی کرن بننا چاہتی ہوں جو میری طرح بدقسمت رہیں۔
چوئی کی اپیل کو ’می ٹو‘ تحریک سے تقویت ملی
چوئی کی اپیل کو سنہ 2017 میں عالمی سطح پر #MeToo تحریک کے بعد نئی زندگی ملی۔
می ٹو تحریک کیا ہے؟
می ٹو تحریک ایک عالمی سماجی تحریک ہے جس کا آغاز سنہ 2006 میں امریکی سماجی کارکن ترانا برک نے کیا تاہم یہ سنہ 2017 میں اس وقت عالمی سطح پر پھیل گئی جب کئی مشہور خواتین نے فلمی صنعت میں ہراسانی اور جنسی تشدد کے خلاف آواز اٹھائی۔
مزید پڑھیں: ایرانی خاتون نے 23 برسوں میں 11 شوہر قتل کردیے، وجہ کیا تھی؟
اس تحریک کے ذریعے لاکھوں خواتین اور مرد اپنے ساتھ پیش آنے والے جنسی استحصال اور ہراسانی کے واقعات کو عوام کے سامنے لائے جس نے دنیا بھر میں طاقتور شخصیات کو احتساب کے دائرے میں لانے کی راہ ہموار کی۔
جنوبی کوریا میں بھی می ٹو تحریک نے ایک بڑے سماجی شعور کو جنم دیا جہاں طویل عرصے سے خواتین کو جنسی ہراسانی، امتیازی سلوک اور انصاف سے محرومی کا سامنا تھا۔ اس تحریک کے بعد ملک میں متعدد بااثر افراد کو عدالتوں کا سامنا کرنا پڑا اور خواتین کے حقوق کے لیے قانون سازی میں بھی بہتری آئی۔ خفیہ کیمروں سے متعلق جرائم اور اسقاطِ حمل کے قوانین میں اصلاحات جیسے کئی اقدامات اسی عوامی دباؤ کا نتیجہ ہیں۔
چوئی مال جا جیسے مقدمات کو دوبارہ کھلوانا اسی بڑھتے ہوئے شعور اور خواتین کے اجتماعی حوصلے کی علامت ہے۔
چوئی کی طویل جنگ
چوئی نے سنہ 2020 میں دوبارہ مقدمہ چلانے کی درخواست دی تھی لیکن ابتدائی عدالتوں نے اسے مسترد کر دیا۔ بعد ازاں خاصی طویل جدوجہد اور اپیلوں کے بعد بالآخر جنوبی کوریا کی اعلیٰ عدالت نے سنہ 2024 میں دوبارہ مقدمہ چلانے کا حکم دیا۔
یہ بھی پڑھیے: سسرالیوں کو زہر دے کر مارنے کا معاملہ: زندہ بچ جانے والے خالو سسر نے مجرمہ کو معاف کردیا
اب ان کے وکلا حکومت سے معاوضے کا مطالبہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ 6 دہائیوں قبل ہونے والے عدالتی ظلم کا ازالہ کیا جا سکے۔