اسرائیلی فضائی حملے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کو فون کرکے نرمی سے دریافت کیا کہ ’کیا کارروائی کامیاب رہی؟‘
تاہم نیتن یاہو نے اس سوال کا کوئی دوٹوک جواب نہیں دیا، جس سے معاملہ مزید مبہم ہو گیا۔
ناراضگی اور سخت لہجہ
اس سے پہلے پہلی ٹیلیفونک گفتگو میں ٹرمپ نے سخت لہجے میں نیتن یاہو پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:قطر پر اسرائیلی جارحیت، پاکستان کا اقوام متحدہ سے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ
ان کا کہنا تھا کہ قطر جیسے اہم اتحادی اور ثالثی ملک میں یہ کارروائی ’نامناسب‘ تھی اور اس سے غزہ جنگ بندی مذاکرات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
’موقع ملا تو فائدہ اٹھایا‘
امریکی صدر کی ناراضگی پر نیتن یاہو نے وضاحت دی کہ انہیں ایک غیر معمولی موقع ملا تھا، اس لیے کارروائی کرنا ضروری سمجھا۔

تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس حملے سے اصل ہدف حاصل ہوا یا نہیں۔
حملے کے نتائج اب تک غیر واضح
اطلاعات کے مطابق حملے میں حماس کے بعض کم درجے کے اہلکار اور ایک قطری سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ لیکن حماس نے دعویٰ کیا کہ اس کی اعلیٰ قیادت محفوظ رہی۔ اس تضاد نے کارروائی کی کامیابی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
قطر کا حساس کردار
یہ معاملہ اس لیے زیادہ حساس ہے کہ قطر غزہ میں جنگ بندی مذاکرات کا مرکزی ثالث رہا ہے اور امریکا بھی اس عمل کا حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:چین کی قطر پر اسرائیلی حملے کی مذمت، امریکا پر غیر متوازن مؤقف اپنانے کا الزام
واشنگٹن کو خدشہ ہے کہ قطر کی سرزمین پر اسرائیلی کارروائی سے نہ صرف امن کوششیں متاثر ہوں گی بلکہ خطے میں امریکا کے تعلقات بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔













