پاکستان اور افغانستان کے درمیان حال ہی میں طے پانے والا ارلی ہارویسٹ پروگرام، جسے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعاون کو بڑھانے کے لیے ایک بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے، بلوچستان کے زمینداروں اور تاجروں کے لیے شدید تشویش کا باعث بن گیا۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں آٹے کا بحران کیسے پیدا ہوا؟
مقامی کسانوں کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ ان کی محنت اور پیداوار کو تباہ کرنے اور معیشت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
معاہدے کے مطابق ایک سال کی مدت کے دوران پاکستان سے کیلا، کینو، آلو اور آم افغانستان برآمد ہوں گے جبکہ افغانستان سے انار، انگور، ٹماٹر اور سیب پاکستان درآمد کیے جائیں گے۔
ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے سینیئر ایڈوائزر کمال شیر یار خان کے مطابق اس پروگرام کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو وسعت دینا اور مستقبل کے بڑے تجارتی معاہدے کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔
ابتدائی پروگرام دونوں ممالک کے درمیان عملی مشکلات اور مواقع کا جائزہ لینے کا ذریعہ بھی ہے۔ لیکن بلوچستان کی تاجر برادری نے اس معاہدے کو مسترد کردیا ہے۔
مزید پڑھیے: دہشتگردی کسی صورت قابل قبول نہیں، بلوچستان کے عوام ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں، وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی
ایوان صنعت و تجارت کوئٹہ کے سینیئر نائب صدر اختر کاکڑ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں سالانہ 15 لاکھ ٹن سیب، 5 لاکھ ٹن انگور اور لاکھوں ٹن ٹماٹر پیدا ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے سیب اور انگور دنیا کے بہترین معیار کے ہیں اور ملکی ضرورت سے زیادہ پیداوار کے باوجود حکومت کی عدم توجہی کے باعث کسان برآمدات سے محروم ہیں۔
اختر کاکڑ کا کہنا تھا اب انہی اجناس کو افغانستان سے درآمد کرنا بلوچستان کے زمینداروں کا معاشی قتل ہے۔
حکومت نے ہمیشہ بلوچستان کے وسائل نظر انداز کیے، رہنما زمیندار ایکشن کمیٹی
زمیندار ایکشن کمیٹی کے رہنما قہار آغا نے بھی اس معاہدے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ہمیشہ بلوچستان کے وسائل کو نظرانداز کیا ہے۔
انوہں نے کہا کہ صوبے میں زرعی اجناس کی پیداوار ملکی ضروریات سے کئی گنا زیادہ ہے لیکن کارگو سسٹم اور برآمدی سہولیات نہ ہونے کے باعث کسان عالمی منڈی تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔
قہار آغا نے کہا کہ یہ پالیسی دراصل صوبے کے زمینداروں کو بھیک مانگنے پر مجبور کر رہی ہے حالانکہ بلوچستان کے وسائل پاکستان کو معاشی طور پر خود کفیل بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
زمینداروں نے واضح طور پر حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر معاہدے پر نظرثانی نہ کی گئی تو وہ بلوچستان بھر میں احتجاجی تحریک کا آغاز کریں گے۔
اس سلسلے میں دھرنے، ریلیاں اور ممکنہ طور پر ٹریفک جام کرنے جیسے اقدامات بھی کیے جا سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاک افغان نیا زرعی تجارتی معاہدہ، بلوچستان کے زمینداروں اور پھل سبزی فروشوں کو تحفظات کیوں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی زرعی معیشت پہلے ہی پانی کی کمی اور حکومتی عدم توجہی کے باعث دباؤ کا شکار ہے۔ ایسے میں افغان درآمدات مقامی کسانوں کو مزید مشکلات سے دوچار کر دیں گی۔














