’بامِ دنیا‘ کے سائے تلے بجلی کا حیرت انگیز اور مثالی منصوبہ

اتوار 14 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’پامیر‘ کو بام دنیا یا دنیا کی چھت کہا جاتا ہے۔ اس کے دامن میں واقع ضلع چترال بالا کے ایک دور افتادہ گاؤں کے باسی نہ صرف ماحول دوست بجلی پیدا کررہے ہیں بلکہ انہوں نے پری پیڈ بجلی کی فراہمی سے بجلی چوری اور لوڈ شیڈنگ پر بھی قابو پالیا ہے۔ یہ وہ مسئلہ تھا جس کا حل آج تک کوئی حکومت نہیں نکال سکی تھی۔

چترال شہر سے تقربیاً 8 گھنٹے کی مسافت پر ’واخان پٹی‘ کے قریب واقع گاؤں ’پاور‘ کے باسی بجلی میں نہ صرف خود کفیل ہو گئے ہیں بلکہ اس کے منافع میں بھی برابر کے شرکت دار ہیں۔ جو پورے ملک کے لیے ایک مثال ہے۔

بجلی کی فراہمی ایک دیرینہ مطالبہ

پاور گاؤں ’دریائے یارخون‘ کے کنارے ایک دور اُفتادہ پہاڑی اور پسماندہ علاقہ ہے، جہاں صرف اسکول کے علاوہ کوئی اور سرکاری عمارت یا دفتر نہیں ہے، جب کہ علاقے سے گزرنے والی واحد سڑک بھی غیر سرکاری تنظیم نے بنائی ہے۔

علاقے کی پسماندگی دور کرنے کے لیے باسی دیہی سطح پر تنظیم بنا کر کام کرتے ہیں جب کہ سال 2011ء میں بجلی کے لیے بھی چھوٹی تنظیموں کو ملا کر YADGAR کے نام سے کمپنی بنا لی، YADGAR کے پہلے سربراہ شیر ولی خان اسیر تھے۔ انیوں نے وی نیوز کو بتایا کہ منصوبے کی کامیابی صرف اور صرف اتحاد اور اتفاق سے ہی ممکن ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے گاؤں میں ’ اے کے آر ایس پی‘ پن بجلی ذریعے بجلی فراہم کر رہی تھی لیکن یہ سہولت صرف رات میں چند گھنٹوں کے لیے تھی جب کہ کم ولٹیج ہونے سے روشنی کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے، جس کی وجہ سے میگا بجلی منصوبہ باسیوں کا مطالبہ تھا۔

وی نیوز سے کے ساتھ ہونے والی طویل نشست میں شیر ولی خان اسیر نے بتایا کہ ’یہ واخان پٹی یعنی پاک افغان بارڈر کے قریب واقع پسماندہ علاقہ ہے۔ یہاں ترقیاتی لحاظ سے حکومتی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔

حکومتی عدم دلچسپی کے باعث مقامی باسیوں نے تنظیم بنا کر ماہانہ بچت شروع کی اور آغا خان ادارہ برائے دیہی ترقی (اے کے آر ایس پی) نامی ادارے کے ساتھ رجسٹرڈ کروا لی۔

سال 2010ء میں ’ اے کے آر ایس پی‘ سے بجلی کا مطالبہ کیا گیا جس کے لیے مقامی افراد نے فی گھر چندہ کرکے ایک کروڑ روپے جمع کیے۔ ہماری کوششوں کو دیکھ کر ’ اے کے آر ایس پی‘ نے بھی دلچسپی لی اور دو کروڑ روپے دیے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی محنت اس وقت رنگ لے آئی جب سوئس حکومتی ادارہ برائے ترقی و تعاون نے منصوبے کے لیے فنڈز فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی۔

شیر ولی کے مطابق مجموعی طور پر یہ 140 ملین کا منصوبہ تھا، جس کے لیے علاقہ مکینوں نے 1 کروڑ، اے کے آر ایس پی نے 2 جب کہ سوئس ادارے نے 11 کروڑ روپے فراہم کیے۔ اس طرح اس دیرینہ منصوبے پر سال 2011ء میں کام کا آغاز ہو گیا۔ یہ منصوبہ ہمارا اپنا منصوبہ ہے جس کے لیے یہاں کے باسی خود آگے آئے اور کام کیا۔

18 ماہ کا منصوبہ 5 سال میں مکمل ہوا

شیر ولی خان نے بتایا کہ سال 2011ء میں پن بجلی پر کام کا باقاعدہ آغاز ہوا جس سے 18 ماہ میں مکمل ہونا تھا لیکن تاخیر کا شکار ہوا۔ فنڈز ریلیز میں تاخیر اور بیرون ملک سے مشینری لانے میں تاخیر سے منصوبہ بھی تاخیر کا شکار اور 18 کے بجائے 5 سال میں مکمل ہوا۔

سال 2016ء میں منصوبے پر کام مکمل ہو گیا اور بجلی کی 800 کلو واٹ پیداوار بھی ہو گئی لیکن اسے کامیابی سے چلانا اور منافع بخش بنانا ایک بڑا چیلنچ تھا۔

شیر ولی خان بتاتے ہیں کہ سب سے پہلے انہوں نے YADGAR کمپنی کو ’ایکسچینج کمیشن آف پاکستان‘ میں رجسٹرڈ کیا، پھر اضافی اخراجات کو کم کرنے اور بجلی چوری اور بقایاجات سے بچنے کے لیے مؤثر اقدامات  زیر غور لائے گئے۔ ’ایکسچینج کمیشن آف پاکستان‘ سے رجسٹریشن کے بعد ہم نے تمام ممبران کو شیئرہولڈر بنانے کا فیصلہ تاکہ وہ اس منصوبے کے نفع و نقصان دنوں میں شرکت دار ہو ں۔

شیئر سرٹیفیکیٹس اور  پری پیڈ میٹر

شیر ولی کہتے ہیں کہ 250 خواتین سمیت 1500 ممبران کو شیئر سرٹیفیکیٹs دیے گئے۔ بجلی کی اووربلنگ، بقایاجات اور میٹر ریڈنگ سے بچنے کے لیے جدید میٹرز لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ پری پیڈ بجلی کی فراہمی کے لیے ہم نے چائنا سے خصوصی طور پر پری پیڈ کارڈ والے میٹرز منگوائے۔ اس سے بلنگ میں آسانی اور فائدہ ہوا۔

انہوں نے فخر سے بتایا کہ پاکستان ہی نہیں بلکہ ایشیا میں بھی یہ پہلا علاقہ ہے جہاں پری پیڈ بجلی میٹرز نصب ہیں اور باسی خود منافع میں شرکت دار ہیں۔

منصوبے سے علاقے کی قسمت بدل گئی

شیر ولی خان اسیر کہتے ہیں بجلی منصوبے کی کامیابی کے بعد علاقے نے ترقی کی ہے اور روزگار کے مواقع پیدا ہو گئے ہیں۔ ان کے مطابق دو طرح کے مواقع پیدا ہوئے ایک بالواسطہ اور دوسرا بلاواسطہ یعنی بجلی کی فراہمی سے کاروبار میں آسانی ہو گئی ہے۔

شیر اعظم پاور گاؤں کے کاروباری شخصیت ہیں۔ وہ کہتے ہیں بجلی کی فراہمی کے بعد ان کے کاروبار میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ میرا جنرل اسٹور تھا، جب کہ بجلی آنے کے بعد 2017ء میں آرا مشین اور چکی کا کاروبار بھی شروع کیا۔

شیر اعظم نے بتایا کہ بجلی سے آسانی اور فوائد دونوں حاصل ہوئے ہیں، وہ اپنی ضرورت کے مطابق کارڈ ریچارج کرتے ہیں جس سے ان کو آسانی ہوتی ہے۔

میرے بھائی پشاور میں ہوتے ہیں ان کے بِل کا اکثر ایشو ہوتا ہے کبھی یونٹ زیادہ ڈالے جاتے ہیں کبھی وہ مصروفیات کی وجہ سے بروقت ادا نہیں کر سکتے، جس سے اضافی پیسے دینے پڑ جاتے ہیں۔ جب ہم یہاں پری پیڈ کی وجہ سے اس طرح کے مسائل سے آزاد ہیں۔

بجلی کے زیادہ استعمال پر قیمت کم

سرکاری پالیسی کے برعکس پاور گاؤں میں زیادہ بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے فائدہ ہے۔ پالیسی کے مطابق زیادہ بجلی استعمال کرنے کی صورت میں خصوصی رعایت دی جاتی ہے۔ فی یونٹ بجلی کی قیمت 5 روپے مقرر ہے، اور 100 یونٹ سے زیادہ استعمال پر خصوصی رعایت شروع ہو جاتی ہے، اور اضافی یونٹ مل جاتے ہیں۔

شیر ولی خان مطابق ان کی کوشش ہوتی ہے کہ صارفین کو زیادہ سے زیادہ فائدہ اور سہولت ہو۔

 15ہزار کی آبادی کو بجلی کی فراہمی

اس منصوبے سے 800 کلو واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے جو پندرہ ہزار کے قریب آبادی کو فراہم کی جاتی ہے۔ جب کہ اس کا استعمال 50 فیصد کے قریب ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ  15 ہزار کی آبادی میں چوری اور بقاجایات کی شرح صفر ہے جس کی بڑی وجہ پری پیڈ بلنگ  کا نظام ہے، جس کے تحٹ کارڈ میں یونٹ ختم ہوتے ہی بجلی کی فراہمی منطقع ہو جاتی ہے۔

جنگلات کی کٹائی میں کمی

پاور گاؤں میں 6 ماہ موسم سرد رہتا ہے اور سرما میں درجہ حرات منفی ہو جاتا ہے۔ ایسے شدید سردی سے بچنے کے لیے لکڑی کا استعمال بڑھ جاتا تھا۔

علاقہ مکینوں کے مطابق بجلی کی فراہمی کے بعد ہیٹر کا استعمال شروع ہوگیا ہے، جس سے لکڑیوں اور آگ پر انحصار کم ہو گیا ہے۔ اب تو کھانا بھی بجلی کے چولہے استعمال کرتے ہیں۔ اس سے سہولت کے ساتھ بچت بھی ہوتی ہے،

مقامی باشندے ’ گلزار احمد‘ نے بتایا 24 گھنٹے بجلی دستیاب ہے اور لوڈشیڈنگ بھی نہیں ہوتی۔

خواتین کے لیے سہولت

پاور میں بجلی کی فراہمی سے خواتین کی مشکلات میں بہت حد تک کمی آئی ہے۔ گل جمال گھیریلو خاتون ہیں وہ کہتی ہیں کہ بجلی سے ان کی زندگی آسان ہو گئی ہے۔ یہ سرد علاقہ ہے جہاں پانی گرم کرنے سے لے کر چائے بنانے اور کھانے کی تیاری تک ہر وقت ایندھن کی ضرورت ہوتی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ اب بجلی آنے سے انہیں پہلے جیسی مشقت نہیں کرنی پڑتی۔

گل جمال کے مطابق گیزر سے گرم پانی مل جاتا ہے، ہیٹر لگاتے ہیں اور کھانا پکانے کے لیے بجلی استعمال کرتے ہیں۔ اسے لکڑی کی نسبت خرچہ بھی کم آتا ہےاور سہولت بھی ہے۔

بجلی کے ساتھ معاشی فائدہ بھی

بجلی منصوبہ شروع کرتے وقت جن لوگوں نے 7 ہزار روپے چندہ دیے تھے وہ YADGAR کے ممبر بن گئے جنہیں شیئر سرٹیفیکیٹس بھی جاری کیے گئے ہیں۔ شیر ولی خان نے بتایا کہ تمام ممبران منصوبے کے شرکت دار ہیں۔

ان کے مطابق بہتر منصوبہ بندی سے اب انہیں ماہانہ دو لاکھ تک منافع ہو رہا ہے اور جو ممبر کسی بھی وقت اپنا حصہ نکلنا چاہے نکل سکتا ہے اور اگر کوئی ممبر جس وقت چاہے اپنے شیئرز بھی فروخت کر سکتا ہے۔اس منصوبے سے ممبران کو معاشی فائدہ پہنچ رہا ہے جو وقت کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔

حکومت کو مشورہ

شیر ولی خان کا کہنا ہے کہ حکومت بھی پری پیڈ میٹرز متعارف کرکے بجلی چوری، بقایاجات اور لوڈشیڈنگ کو کنٹرول کر سکتی ہے جس کی مثال پاور جیسے دور افتادہ اور پسماندہ گاؤں کا منصوبہ ہے۔

بقایاجات اور بجلی چوری سے حکومت کا کتنا نقصان ہو رہا ہے؟

پاور گاؤں کے باسیوں نے line losses اور چوری کا مکمل حل نکل لیا ہے۔ لیکن حکومت کے لیے اب تک یہ ایک بڑا چیلنچ ہے۔ نیپرا نے دوران سال جنوری میں ملک میں بجلی چوری اور line losses کے حوالے سے رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق خیبر پختونخوا میں بجلی کی تقسیم کے ذمہ دار کمپنی PESCO کو سب سے زیادہ نقصان کا سامنا ہے، جو 64 ملین روپے ہے۔

حکومت چوری اور line losses کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے لیکن اس میں کامیابی نہیں ملی۔ جب کہ وفاقی حکومت نے چوری کی روک تھام کے لیے خصوصی پولیس فورس تشکیل دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ لیکن پاور کے باسیوں کا خیال ہے جب تک عوام خود تعاون اور ذمہ داری کا احساس نہ کریں اس مسئلے پر موجودہ بلنگ سسٹم میں قابو پانا مشکل لگ رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp