ڈھاکا یونیورسٹی کے سینٹرل اسٹوڈنٹس یونین (DUCSU) کے انتخابات میں جماعتِ اسلامی کی طلبہ تنظیم نے شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ 1971 کے بعد کسی اسلام پسند طلبہ گروپ نے اس بااثر ادارے پر کنٹرول حاصل کیا ہو۔
بظاہر یہ ایک طالب علموں کا انتخاب ہے، لیکن بھارت کے لیے یہ محض ایک وقتی خبر نہیں بلکہ مستقبل کے لیے ایک تشویش ناک اشارہ ہے۔ یہ ایک سیاسی جھٹکا ہے جس کے اثرات جلد بھارت کی سرحد کے اس پار بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
ڈھاکا یونیورسٹی کی حیثیت
یہ الیکشن محض کیمپس کا معاملہ نہیں بلکہ بنگلہ دیش کی سیاست کا پیمانہ تصور کیا جاتا ہے۔
جماعتِ اسلامی کی طلبہ تنظیم کی کامیابی ملک کے 2 بڑے روایتی سیاسی دھڑوں، عوامی لیگ (جو اب پابندی کا شکار ہے) اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP)، کے خلاف عوامی بے زاری کا اظہار ہے۔

دہائیوں کی سیاست نے ان جماعتوں کو بدعنوانی، اقربا پروری اور سیاسی تشدد سے جوڑ دیا ہے، جس سے عوام بڑی حد تک بددل ہو چکے ہیں۔
متبادل کی تلاش
طلبہ کا جماعت اسلامی کے ساتھ جانا بنیادی طور پر شدت پسندی کی حمایت نہیں بلکہ متبادل کی تلاش ہے۔ نوجوان ووٹر جماعت کی جانب اس لیے مائل ہیں کہ اسے پرانے نظام کی کرپشن سے آزاد ایک قوت سمجھتے ہیں۔
اس بے زاری کو اس بات نے مزید گہرا کر دیا ہے کہ عوامی لیگ کی حکومت حالیہ طلبہ تحریک کے نتیجے میں ہٹا دی گئی اور اب ملک نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں ایک نازک عبوری انتظامیہ کے تحت چل رہا ہے۔ ایسے میں عوام نئی سمت کے متلاشی ہیں۔
جماعت اسلامی کی دوبارہ ابھرتی طاقت
عوامی لیگ کے دور میں جماعت اسلامی کو سخت دباؤ اور پابندیوں کا سامنا رہا، لیکن اب یہ نئے حالات میں خود کو مضبوط کرنے کے مواقع پا رہی ہے۔
ڈھاکا یونیورسٹی جیسے سیکولر اور ترقی پسند قلعے میں اس کی کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ ایک نئی نسل اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہے، خصوصاً وہ نوجوان جنہوں نے 1971 کی جنگِ آزادی کے دوران جماعت کے کردار کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔
بھارت کے لیے کیا معنی؟
فروری 2026 میں بنگلہ دیش کے عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس وقت سیاسی منظرنامہ بالکل بدل چکا ہے۔ عوامی لیگ پابندی کے باعث انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی اور اس کی قیادت جلاوطنی میں ہے۔
دوسری طرف بی این پی بھی مسائل کا شکار ہے۔ بیگم ضیا ڈھاکا میں تو واپس آ گئی ہیں لیکن بیماری کے باعث غیر فعال ہیں۔ قیادت برسوں سے لندن میں مقیم ہے اور عوام سے دور سمجھی جاتی ہے۔
Bangladesh Islami Chhatrashibir (@info_shibir) has secured a sweeping victory in the #DhakaUniversity Central Students' Union (Ducsu) election 2025, winning 23 out of 28 posts in the central committee, including vice-president and general secretary posts.
Md Abu Shadik (Kayem)… pic.twitter.com/Zin4DW7kBJ
— Basherkella – বাঁশেরকেল্লা (@basherkella) September 10, 2025
ایسے میں جماعت اسلامی کے لیے راستہ صاف ہے۔ اس کی سماجی اور فلاحی سرگرمیوں پر مبنی جڑوں سے جمی ہوئی تنظیمی ڈھانچہ اور نسبتاً “صاف شبیہ” اسے ووٹروں میں نمایاں کامیابی دلا سکتی ہے۔
بھارت کے لیے ممکنہ خطرات
اگر جماعت اسلامی اکثریتی حکومت بناتی ہے یا کسی نئی مخلوط حکومت میں طاقتور کردار ادا کرتی ہے تو بھارت کے لیے یہ پیچیدہ اور ممکنہ طور پر مخاصمت پر مبنی صورتحال ہوگی۔
زیادہ سخت گیر حکومت ڈھاکا میں بھارتی سرحد کے قریب بھارت مخالف عناصر کو تقویت دے سکتی ہے، خاص طور پر پاکستانی آئی ایس آئی کے تعاون سے، جس سے بھارت کے لیے سیکیورٹی چیلنجز بڑھ سکتے ہیں۔
Bangladesh towards True Democracy. First Students Union Election at Dhaka University after 6 years. #dhakauniversity #DUCSU pic.twitter.com/nMAMIGCfYk
— Ihtisham Khaliq Waseer (@iK_Waseer) September 9, 2025
مضمون نگار کے مطابق بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے، کیونکہ جماعت اسلامی کی نظریاتی اساس سیکولر جمہوریت کے انکار اور اسلام کی زیادہ سخت گیر تشریح پر قائم ہے، جو مستقبل میں اس کے طرزِ عمل کے بارے میں سنگین سوالات پیدا کرتی ہے۔
بیداری کا لمحہ
ڈھاکا یونیورسٹی کے یہ انتخابات اس بات کا عندیہ ہیں کہ بنگلہ دیش کی سیاست کی بنیادیں ہل رہی ہیں۔ بھارت کو غافل رہنے کی مہلت نہیں۔ نئی دہلی کو تمام سیاسی قوتوں، بشمول جماعت اسلامی کے مختلف دھڑوں، سے روابط قائم رکھنے اور ممکنہ طور پر غیر دوستانہ حکومت کے منظرنامے کے لیے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان قائم اسٹریٹجک شراکت داری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ جتنا جلد بھارت اس حقیقت کو تسلیم کر لے گا، اتنا ہی بہتر طور پر مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے قابل ہوگا۔
بحوالہ: https://www.ndtv.com/
مضمون نگار ششی تھرور: مصنف، سابق سفارتکار اور 2009 سے کیرالہ کے شہر تریوانندرم سے رکنِ پارلیمان ہیں۔