رات کے ساڑھے 3 بجے نیند اچانک ٹوٹ گئی۔ گیسٹ ہاؤس کی کھڑکیوں سے باہر جھانکا تو آسمان صاف تھا، لیکن گرجنے کی آوازیں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔
ذوالفقار علی کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی، یہ بادل نہیں، لائن آف کنٹرول پار سے آنے والی گولہ باری تھی۔ وہ لمحہ ان کی زندگی کے اُن کئی لمحوں میں سے ایک تھا جب صحافت اور زندگی کے درمیان لکیر دھندلی ہوگئی۔
ذوالفقار علی، جو 1990 کی دہائی میں بی بی سی، رائٹرز اور اے ایف پی جیسے اداروں سے وابستہ رہے، آج بھی آزاد کشمیر میں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے تحفظ اور معاوضے کے مسائل پر آواز اٹھاتے ہیں۔ ان کے بقول،’ہمیں نہ تب حفاظتی سامان ملا، نہ آج مقامی رپورٹرز کو کچھ میسر ہے۔ ‘
سرحدی خطے میں صحافت: ہر خبر ایک خطرہ
آزاد جموں و کشمیر کا شمار پاکستان کے اُن علاقوں میں ہوتا ہے جہاں سرحدی کشیدگی معمول کی بات ہے۔ جنگ بندی کی خلاف ورزیاں، فائرنگ، اور گولہ باری اس خطے کی روزمرہ کی حقیقت ہے۔
اس ماحول میں کام کرنے والے صحافیوں کے لیے نہ تو کوئی باقاعدہ حفاظتی تربیت ہے، نہ ساز و سامان، اور نہ ہی انشورنس۔
ذوالفقار علی یاد کرتے ہیں کہ:
’وادی نیلم میں ایک موقع پر میں چند منٹ کی تاخیر سے پہنچا، اور وہاں پہلے ہی گولہ باری سے ٹرک جل چکے تھے۔ اگر میں وقت پر ہوتا، شاید یہ رپورٹ میری آخری ہوتی۔ ‘
ایسے واقعات کے باوجود، مقامی صحافی اپنی جان خطرے میں ڈال کر رپورٹنگ کرتے ہیں، کیونکہ صحافت ان کا پیشہ ہی نہیں، ان کی شناخت بھی ہے۔
بین الاقوامی اور مقامی صحافیوں کا فرق
چند بین الاقوامی اور قومی ادارے جیسے جیو نیوز اور اے ایف پی اپنے نمائندوں کو باقاعدہ تربیت، مالی سپورٹ اور حفاظتی سامان فراہم کرتے ہیں۔
جیو کے نمائندے نعیم عباسی اور اے ایف پی کے سجاد میر اس فرق کو واضح کرتے ہیں کہ انہیں ہیلمنٹ، بلٹ پروف جیکٹ، اور حتیٰ کہ ہنگامی صورت حال میں رابطہ نظام بھی میسر ہے۔
اس کے برعکس، مقامی رپورٹرز کے پاس نہ مالی وسائل ہوتے ہیں، نہ ادارہ جاتی معاونت۔ مختلف ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز سے منسلک صحافی شاہ زیب افضل بتاتے ہیں:
’زیادہ تر صحافی اپنی جیب سے اخراجات اٹھا کر رپورٹنگ کرتے ہیں، اور معاوضہ کئی بار مہینوں تک نہیں ملتا۔ ‘
نوکری بھی نہیں، تحفظ بھی نہیں
سابق کیمرہ مین اشفاق مغل کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ انہوں نے مہینوں بغیر تنخواہ کے نجی ٹی وی کے لیے کام کیا، اور پھر ایک دن اچانک فون آیا کہ ان کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں۔
’ نہ پیشگی اطلاع، نہ واجبات کی ادائیگی۔ بس یوں سمجھیں صحافت سے بےدخل کر دیا گیا۔ ‘
فروری 2025 میں ایک کشمیر ڈیجیٹل، آزاد کشمیر میں شروع ہوا، جس نے چند صحافیوں کو تنخواہ کے ساتھ کام کے مواقع دیے۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ضرور ہے، مگر یہ قطرہ دریا میں کے مترادف ہے۔
یہ کب شروع ہوا اور کیوں
کشمیر ڈیجیٹل کے بیورو چیف سید ابرار حیدر شاہ نے بتایا کہ جنوری 2025 میں کشمیر ڈیجیٹل کو شروع کیا گیا، اس کا مقصد آزاد کشمیر کے مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سارے صحافی روزگار سے محروم تھے انہیں روزگار فراہم کرنا تھا۔
سید ابرار حیدر نے بتایا کہ کشمیر ڈیجیٹل کے رپورٹرز کو 35 ہزار سے 50 ہزار تک سیلری پیکج دیا جا رہا ہے، اس سے پہلے کسی بھی ادارے نے اتنی رقم معاوضےکی صورت میں رپورٹرز کو ادا نہیں کی۔
ادارہ جاتی نظام: بے اختیار، غیر فعال، اور مبہم
آزاد کشمیر میں صحافیوں کے تحفظ اور حقوق کے لیے کوئی مؤثر قانون موجود نہیں۔ وفاقی سطح پر 2021 کا صحافیوں کے تحفظ کا قانون تو ہے، لیکن ریاست میں اس پر عمل درآمد کی کوئی صورت نہیں۔
وزیر اطلاعات پیر مظہر سعید شاہ کے مطابق، صحافی نجی اداروں سے وابستہ ہوتے ہیں، اس لیے حکومت کے پاس ان کی تنخواہوں یا کام کی تفصیلات کا ریکارڈ نہیں۔ جب تحریری شکایت آتی ہے تو کارروائی کی جاتی ہے، زبانی شکایات پر نہیں۔
آزاد کشمیر پریس فاؤنڈیشن کو صحافیوں کی فلاح کے لیے مؤثر ادارہ کہا جاتا ہے، لیکن اس کی کارکردگی اور شفافیت پر سوالیہ نشان ہے۔ جب معلومات کے لیے رابطہ کیا گیا، تو کہا گیا کہ ’آزاد کشمیر میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ موجود نہیں، اس لیے معلومات فراہم نہیں کی جا سکتیں۔
انہوں نے کہا اکثر اوقات صحافی ہمارے پاس آتے ہیں کہ ہمارا ادارہ ہمیں تنخواہ نہیں دیتا ہم انہیں باقاعدہ یہ کہتے ہیں ایسے اداروں کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دو جو آپکو کام کا معاوضہ فراہم نہیں کر سکتا یا تحریری طور پر شکایت درج کروائیں تاکہ ہم کوئ کاروائی کر سکیں۔
تاہم آج تک کوئی بھی صحافی تحریری شکایت لیکر ہمارے پاس نہیں آیا اور زبانی کلامی شکایت کی کوئ اہمیت نہیں ہوتی سرکار کے نزدیک اور نا ہی اداروں کو پابند کرنے کا اختیار ہے۔
شاہ نے بتایا کہ آزاد کشمیر حکومت نے 11 مارچ 2025 کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں تمام ملازمین کے لیے کم از کم تنخواہ 37 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافی بھی دوسرے ملازمین کی طرح محنت کرتے ہیں، اس لیے ان کے لیے کوئی الگ قانون بنانے کی ضرورت نہیں۔ تمام میڈیا اداروں کو چاہیے کہ وہ اس سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق صحافیوں کو بھی کم از کم 37 ہزار روپے تنخواہ دیں۔
جب پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ معلومات کے لیے رابطہ کیا گیا، تو انہوں نے کہا کہ ’’آزاد کشمیر میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ موجود نہیں، اس لیے معلومات فراہم نہیں کی جا سکتیں۔
آزاد کشمیر پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر آصف نقوی کے مطابق آزاد کشمیر میں 72 رجسٹرڈ اخبارات ہیں، جن میں سے 12–15 صرف اشتہارات کے لیے رجسٹر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کو بند کر 10 سے 12 فعال اخبارات لائیں گے جو کام بھی کریں گے۔
آصف نقوی کی مطابق ان کے پاس یہ معلومات نہیں ہے کہ کن اداروں میں کتنے صحافی کام کر رہے ہیں، یا کس کو تنخواہ دی جا رہی ہے اور کتنی۔
آصف نقوی نے بتایا کہ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کو سالانہ 18 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔ تاہم 18 کروڑ روپے کی خطیر رقم کہاں خرچ ہوتی ہے؟ کن میڈیا اداروں کو دی جاتی ہے، اور اس کی تقسیم کا کیا طریقہ کار ہے؟ ’یہ انہوں نے بتانے سے منع کر دیا کہ ہم یہ معلومات نہیں دے سکتے۔‘
انجام: صحافی کا سوال — کیا میری جان کی کوئی قیمت نہیں؟
آزاد کشمیر کا صحافی دوہری جنگ لڑ رہا ہے۔ ایک طرف دشمن کی گولہ باری ہے، تو دوسری طرف اپنے اداروں کی خاموشی۔ نہ اسے تنخواہ کی یقین دہانی ہے، نہ سیکیورٹی کی ضمانت۔ نہ قانونی تحفظ ہے، نہ فلاح کا نظام۔
ذوالفقار علی، شاہ زیب افضل، اشفاق مغل اور درجنوں دیگر صحافی صرف ایک سوال لیے زندگی گزار رہے ہیں۔ ’کیا ہم محض خبر دینے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ کیا ہماری زندگی کی کوئی قیمت نہیں؟‘
یہ سوال صرف ایک صحافی کا نہیں—یہ سوال ریاست، حکومت، اور پورے سماج سے ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔