صحافت کا گرتا معیار کس کو پریشان نہیں کرتا۔ نئے آنے والوں میں سے اکثر کو تو خبر کی شرائط کا بھی علم نہیں۔ بس جو خبر جہاں سے بھی مل جائے جھٹ پبلک کر دیتے ہیں اور بعض اوقات تو بنا تحقیق خبر شائع کردی جاتی ہے۔ایسا کئی بار ہوا جب کسی صحافی نے دوسروں سے بازی لینے جانے کے چکر میں ایسی خبر پبلک کردی جو سرا سر بے بنیاد ثابت ہوئی اور صحافتی ادارے کو معذرت کرنا پڑی۔
صحافتی آداب تو جانچ پڑتال کے علاوہ سورس آف انفارمیشن کے تحفظ پر بھی زور دیتے ہیں اسلیے ضروری نہیں کہ جو خبر آپ کے ہاتھ لگے اسے پبلک کردیا جائے بعض اوقات خبر کے ماخذ کو تحفظ دینے کے لئے کسی بڑی خبر کو روک لیا جاتا ہے۔ یہ تصور غلط ہے کہ صحافی کو ہر نئی خبر معلوم ہوتے ہی پبلش کر دینی چاہئے۔بلکہ درست بات تو یہ ہے کہ صحافی کو اپنے سورس کو خبر سے زیادہ اہمیت دینی چاہئے۔ کیونکہ سورس رہے گی تو خبریں ملتی رہیں گی اور جو خبر فی الوقتی روک لی جاتی ہے وہ آگے چل کر فائدہ دیتی ہے۔
ایک صحافی کے لئے ضروری ہےکہ وہ خبروں اور معلومات میں فرق کرنا سیکھے۔ بعض اوقات ایسی باتیں علم میں آتی ہیں جو عوام کو بتانے لائق نہیں ہوتیں لیکن وہ صحافی کے علم و تجربہ میں اضافہ کرکےاس کے تجزیہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخصیت کے نجی معاملات کی جانکاری حاصل ہوجائے تو شخصیت کا تعلق اگر براہ راست عوام سے نہ ہو یا اس بات کو پبلش کرنے سے عوام الناس کی بھلائی یا ملک کی خدمت کا پہلو نہ نکلتا ہو اور بات محض کسی کے کردار کو منفی یا مثبت ثابت کرنے کے لئے خبر بنا کر پیش کی جائے تو یہ صحافتی اقدار کے خلاف ہے۔
صحافی کسی شخصیت کی کسی بھی قسم کی شخصی مہم جوئی کا حصہ نہیں بن سکتا۔البتہ اس شخصیت سے متعلق ایسے حقائق جو عوام الناس کی اجمتاعی زندگی کو متاثر کرتے ہوں ان کی خبر دی جاسکتی ہےلیکن اس میں کسی قسم کا ابہام یا اندازہ شامل نہیں ہونا چاہئے۔ خبر کا مکمل طور پر ناقابل تردید حقائق پر مبنی ہونا ضروری ہے۔
کسی بھی خبر کو شائع کرنے سے پہلے صحافی کے لئےضروری ہے کہ وہ اس خبر کی “الف” کو جانے یعنی اس کی ابتدا اور بنیاد سے براہ راست آگاہ ہو۔ جس طرح حروف تہجی میں الف سے پہلے کچھ نہیں اسی طرح خبر کے لئے واقعہ کی شروعات کو ” کچھ نہیں” کی اس حد سے جاننا چاہئے جہاں سے ” کچھ ہونے” کا آغاز ہوا۔
اگر صحافی عینی شاہد نہیں یا اس نے خبر براہ راست نہیں سنی تو پھر اس کے لئے ضروری ہے کہ جس ادارے یا شخص سے وہ معلومات لے رہا ہے اس کی جانچ پڑتال اس طرح کرے کہ جیسے وہ خود اس وقت اس جگہ موجود تھا۔ تحقیق کا معیار ایسا ہونا چاہئے کہ جیسے قران مجید کی سورت حجرات کی آیت نمبر چھ میں ہے۔”اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو۔”
ہمارے ملک میں اس نا سمجھی کا بحران ہے کہ اسلام صحافتی اقدار سے متعلق کوئی رہنمائی نہیں کرتا اگر کرتا بھی ہے تو محض اخلاقیات سے متعلق رہنمائی ملتی ہے جبکہ تحقیق خبر سے متعلق دین اسلام ہمیں رہنمائی فراہم نہیں کرتا۔ یہ مفروضہ درست نہیں۔ کیونکہ مندرجہ بالا آیت تحقیق خبر کا قرآنی تصور پیش کرتی ہے۔ حکم الہی واضح ہے کہ خبر کے لئے تحقیق کرنا ضروری ہے اور خصوصا جب خبر دینے والا کردار کا غازی بھی نہ ہوتو پھر ناصرف تحقیق خبر کا حکم صادر ہوا بلکہ ساتھ ہی متنبہ کردیا گیا کہ بنا تحقیق خبر شائع کرنے سے کسی قوم کا نقصان ہوسکتا ہے اور خبر دینےوالے کوپشیمانی اور ہزیمت کاسامنا کرنا ہڑ سکتا ہے جیساکہ آجکل یہ سلسلہ معمول بنتا جارہا ہے۔
عصر حاضر کی صحافت اور اسلامی تعلیمات کی رو سے صحافت کے فرق کو سمجھنے کے لئے ، دوران تعلیم جب مجھے تھیسس لکھنا تھا تو تحقیق میں جو ایک بنیادی فرق میرے سامنے آیا وہ خبر اور کردار کا تھا۔ موجودہ صحافت خبر کو زیادہ اہمیت دیتی ہے اور خبر دینےوالے کی شخصیت کردار و شہرت کو خاص طور پر مد نظر نہیں رکھتی جبکہ اسلامی تعلیمات میں خبر کی حیثیت ثانوی ہے اور اس کے مقابل کردار کو زیادہ اہم جانا جاتا ہے۔
اس کی ایک مثال وہ مشہور واقعہ ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کی خاطر اہل مکہ کو جمع فرمایا اور کوہ صفا پر کھڑے ہوکر سوال کیا کہ اے لوگو اگر میں کہوں کہ پیچھے وادی سے ایک لشکر( یا بعض روایا ت میں شہسواروں کی ایک جماعت) ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتی ہے تو کیا تم لوگ مجھے سچا مانو گے یعنی میری بات کا یقین کروگے تو ان سب لوگوں نے کہا کہ ہاں بیشک ہم نے آپ کو ہمیشہ سچا ہی پایا ہے۔ یعنی خبر دینے والے کا کردار ایسا ہو کہ خبر سننےوالا کسی قسم کے شک میں پڑے بنا اس کی دی ہوئی خبر کو من وعن تسلیم کر لے اور یقین کرلے کہ یہ خبر درست ہے۔
ہمارے ہاں صحافت کی زوال پذیری کا بڑا سبب یہی پہلو ہے جسے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ صحافتی ادارے اس بابت سوال ہی نہی کرتے کہ صحافی کا کردار کیسا ہے؟ روزمرہ زندگی میں سچ اور جھوٹ کا پیمانہ کیا ہے؟ امانت دار ہے کہ نہیں؟ اخلاقی معاملات کیسے ہیں ؟ سماجی رحجانات کیسے ہیں؟ اور اب تو ایسا بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ تعلیمی قابلیت تک کو نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔
اگر کوئی تگڑی سفارش آجائے تو کسی کو بھی صحافی بنایا جاسکتا ہے اور پھر ایسے ہی لوگ دولت کمانے کی راہیں نکالنے لگتے ہیں اور پھر معاشرے پر سنسنی اور منفی اثرات مرتب کرنے والی خبریں بریکنگ نیوز کے طور پر سامنے آنے لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں صحافی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔
المیہ تو یہی ہے کہ آج کا صحافی (اکثر)ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دیتا نظر آتا ہے۔اسے اس کام سے خبردار کرنے والے ادارے بھی اس وقت اپنے اصولوں کے خلاف چل رہے ہیں۔یقینا یہ ساری صورت حال زوال پذیری کی نشاندہی کرتی ہے لیکن مملکت اسلامیہ کے صحافی اگر تحقیق خبر کے قرآنی تصور کو سمجھ لیں تو ناصرف صحافت کی بقا کا مسئلہ حل ہوجائے گا بلکہ خود صحافیوں کی گرتی ساکھ بھی بحال ہوجائے گی۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صحافی اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ اسلام اسے تحقیق خبر پر مغرب جیسی رہنمائی نہیں دیتا اور جب وہ مغربی افکار کو اپنانا چاہتا ہے تومعاشرہ اسے مکمل طور اپنانے نہیں دیتا اسی لئے بہتر تو یہی ہے کہ ہم اپنے ملک مذہب اور معاشرے کے مطابق زندگی کے امور انجام دیں تاکہ جو کشمکش اور تناو فریقین کے مابین بناہوا ہے اس سے نجات ملے۔
صحافت میں صحافی کو جہاں تحقیق کے عمل کو یقینی بنانا ضروری ہے وہیں اس کا صحت مند رہنا اور صحت مند رحجانات رکھنا بھی ضروری ہے۔ امید کرنی چاہئے کہ صحافتی ادارے اور حکومت اس پہلو کومد نظر رکھتے ہوئے مستقبل میں صحافیوں کو ایساماحول فراہم کرنے میں دلچسپی لیں گے جو صحافی، صحافت اور وطن عزیز کے لئے مفیدثابت ہونگے۔