پاکستان کا مردم خیز صوبہ، بلوچستان، متنوّع موسمی حالات، مہمان نوازی کے علاوہ تازہ پھلوں، خشک میوہ جات اور لائیواسٹاک کی وجہ سے مشہور ہے، تو اپنے خوش رنگ، لذیذ اور روایتی کھانوں کے حوالے سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ نو ہزار سال قدیم مہر گڑھ کے آثار پر تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اُس دَور کے لوگ جانوروں کے گوشت سے مختلف اقسام کی خوش ذائقہ ڈشز تیار ہی نہیں کرتے تھے، انہیں محفوظ رکھنے کے ہُنر سے بھی واقف تھے۔ دراصل بلوچستان میں کھانے پینے کی اشیاء زیادہ عرصے تک محفوظ رکھنے اورپھر ناموافق موسموں میں استعمال میں لانے کے کئی طریقے زمانۂ قدیم سے رائج ہیں۔
یہاں گوشت، مچھلی، زرد آلو (خوبانی)، شنے، دودھ، مکھن اور ساگ کے پتّوں سمیت دیگر اشیاء خشک کرکےطویل عرصے تک استعمال کرنے کا طریقہ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ ابتدائے آفرینش میں انسان اپنی غذا کے حصول کے لیے جنگلی جانوروں کا شکارکرتا تھا اور جب تک اُس کا گوشت خراب نہیں ہوتا، اُسے استعمال میں لاتارہتا۔ پھر رفتہ رفتہ گوشت کو محفوظ کرکے اُسے زیادہ عرصے تک قابلِ استعمال بنانے کی راہ ہم وار ہوئی۔ مزید برآں، جب انسان آگ کی دریافت کے قابل اور اس کی اہمیت سے آگاہ ہوا، تو اُس پر کھانا پکانے لگا، جس سے خوراک کی افادیت اورذائقے میں اضافہ ہوا۔ بہرحال، زیرِنظر مضمون میں قدیم دَور کے کچھ روایتی کھانوں اور ان کی تیاری کے حوالے سے چیدہ چیدہ معلومات نذرِ قارئین ہے۔
بلوچستان کے روایتی کھانے
بلوچستان کے روایتی کھانے اپنی لذّت و غذائیت کی وجہ سے مُلک بھر میں معروف ہیں۔ جس طرح پاکستان کے مختلف علاقوں کی اپنی تہذیب و ثقافت اور مخصوص غذائیں ہیں، اسی طرح صوبہ بلوچستان کی بھی کچھ منفرد روایات اورخاص پکوان ہیں۔ یہاں جن مختلف کھانوں کا رواج ہے،اُن میں سب سے معروف پکوان سجّی، کاک اور دَم پُخت ہیں۔ صوبۂ بلوچستان کے سرد علاقوں میں صدیوں سے چھوٹے جانوروں کا گوشت دھوپ میں خشک کرکے سردیوں میں استعمال کرنے کا رواج عام ہے۔
جسے پشتو میں ’’لاندی‘‘ اور بلوچی یا براہوی میں ’’خدیت‘‘ کہاجاتا ہے۔ چھوٹے جانور، خصوصاً بھیڑ ذبح کرنے کے بعد کھال اُتار کر اس پر نمک اور ہینگ کا لیپ کیا جاتا ہے تاکہ اُسے کیڑا نہ لگے۔ بعض جگہ ذبح شدہ جانوروں کے بال جلا کر کھال کے ساتھ بھی محفوظ کیا جاتا ہے۔ پھر اس کے ٹکڑے کرکے حسبِ ضرورت سالن کا شوربا بنایاجاتا ہے۔ اُس میں مونگ کی ثابت دال ملانے سے ذائقہ دوچند ہوجاتا ہے۔ بلوچستان کے دُور دراز علاقوں میں شہروں کی طرح دکانوں پر جا بجا گوشت دست یاب نہیں ہوتا، لہٰذا اب بھی ان علاقوں میں اسی قدیم طریقے سے خشک گوشت محفوظ کرکے استعمال میں لایا جاتا ہے اور سردیوں میں پروٹین کی کمی پوری کی جاتی ہے۔ ان علاقوں میں چھوٹے جانوروں کے تازہ گوشت سے سجّی، روسٹ، دَم پُخت اور کھڈّی کباب وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔