بین الاقوامی اولمپک کمیٹی (آئی او سی) نے روس اور بیلاروس کی قومی ٹیموں کو 2026 کے سرمائی اولمپکس، جو اٹلی کے شہر میلان اور کورٹینا ڈیمپیٹزو میں منعقد ہوں گے، میں شرکت کی اجازت نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔
آئی او سی کی جانب سے یہ فیصلہ یوکرین جنگ کے بعد لگائی گئی پابندیوں کے تسلسل کے طور پر سامنے آیا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے بعض کھلاڑی جانچ پڑتال کے بعد صرف انفرادی طور پر غیر جانبدار پرچم تلے مقابلے میں حصہ لے سکیں گے۔
یہ بھی پڑھیے: جعلی فٹبال ٹیم جاپان پہنچا دینے کا معاملہ، ڈی پورٹ ہونے والے 22 ’کھلاڑی‘ گرفتار
اس سے قبل 2022 میں روس اور بیلاروس کو اولمپکس سمیت دیگر بڑے کھیلوں کے مقابلوں سے خارج کر دیا گیا تھا۔ بعدازاں کچھ رعایت دی گئی جس کے تحت پیرس اولمپکس 2024 میں محدود کھلاڑیوں کو غیر جانبدار پرچم تلے کھیلنے کی اجازت دی گئی لیکن ٹیموں کی شمولیت پر مکمل پابندی برقرار رکھی گئی۔
BREAKING NEWS
Russia is not allowed into the Olympic ice hockey community at the Winter Olympic Games next year.
This is stated by Luc Tardif, chairman of the International Ice Hockey Federation.
The Russian Olympic Committee has received the message, he says to SVT Sport. pic.twitter.com/7monzdZFZC
— Base of Ukrainian sports 🇺🇦 | Olympics (@Ukrsportbase) May 25, 2025
تنظیم کی نئی صدر کرسٹی کووینٹری نے کہا کہ ایگزیکٹو بورڈ وہی طریقہ کار اپنائے گا جو پیرس اولمپکس میں اختیار کیا گیا تھا، اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ مسلح تنازعات کی بنیاد پر قوموں پر مکمل پابندی لگانے کی حامی نہیں ہیں۔
مقررہ پالیسی کے تحت وہ کھلاڑی مقابلے میں حصہ نہیں لے سکیں گے جو جنگ کی کھل کر حمایت کرتے ہیں یا روسی و بیلاروسی فوج اور سیکیورٹی اداروں کے ساتھ معاہدے پر ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: مغرب کی یوکرین اور غزہ پر دہری پالیسی عالمی ساکھ کے لیے خطرہ ہے: ہسپانوی وزیراعظم
دوسری جانب روسی حکام نے ان پابندیوں کو سیاسی قرار دیتے ہوئے مغربی ممالک پر کھیلوں کو سیاست زدہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔ ماسکو نے آئی او سی کے اقدامات کو ’اولمپک چارٹر کی کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا ہے جس کے مطابق کھیلوں کو سیاست سے بالاتر ہونا چاہیے۔
اس کے باوجود روسی کھلاڑی عالمی سطح پر کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ سنگاپور میں منعقدہ 2025 ورلڈ ایکویٹک چیمپئن شپ میں روسی تیراکوں نے 18 تمغے جیتے، جن میں چھ سونے کے بھی شامل تھے اور غیر جانبدار حیثیت میں حصہ لیتے ہوئے ٹیم نے مجموعی طور پر چوتھی پوزیشن حاصل کی۔