’وزارتی مشن اسکیم‘ : ہندوستان کو متحد رکھنے کی آخری کوشش

پیر 15 مئی 2023
author image

عقیل عباس جعفری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جب بھی تقسیم ہند کی گفتگو چھڑتی ہے یہ بات زیر بحث آتی ہے کہ ہندوستان کو متحد رکھنے کی آخری تجاویز وہ تھیں جنہیں وزارتی مشن اسکیم کہا جاتا ہے۔ اگر ان تجاویز کو منظور کرلیا جاتا تو شاید آج ہندوستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔

ان تجاویز کا پس منظر یہ تھا کہ 1945ء میں جب ہندوستان کی مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نے ملک کی سیاسی اور قومی صورت حال کو واضح کردیا تو انگریز حکام کو احساس ہوا کہ ملک کے سیاسی تعطل کو دور کرنے کے لیے جلد ہی کوئی ٹھوس قدم اٹھانا ضروری ہے۔

آل انڈیا مسلم لیگ

واضح رہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے یہ انتخابات مذہبی بنیادوں پر لڑے تھے۔ ان انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس کے مقابلے میں اسے واضح کامیابی حاصل ہوئی تھی اور یہ طے ہوگیا تھا کہ ہندوستان کی تقدیر کا فیصلہ آل انڈیا مسلم لیگ کو شامل کیے گئے ممکن نہیں ہوگا۔

ایسے میں 19 فروری 1946ء کو برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نے لارڈ پیتھک لارنس کی قیادت میں ایک تین رکنی مشن ہندوستان بھیجنے کا اعلان کیا۔ مشن کے بقیہ دو ارکان سر اسٹیفرڈ کرپس اور اے وی الیگزینڈر تھے، چونکہ یہ تینوں برطانوی کابینہ کے رکن تھے اس لیے اس مشن کو وزارتی مشن کا نام دیا گیا۔

وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی

15 مارچ 1946ء کو برطانیہ کے وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نے دارالعوام میں اعلان کیا کہ میرے ساتھی اس عزم کے ساتھ ہندوستان جا رہے ہیں کہ وہ ہندوستان کو جلد از جلد آزادی حاصل کرنے میں مدد دیں۔ یہ فیصلہ ہندوستانیوں کو کرنا ہے کہ وہ کس قسم کی آزادی چاہتے ہیں۔

’دی تھری میگی‘

یہ مشن 24 مارچ 1946ء کو کراچی اور پھر اسی دن دہلی پہنچ گیا۔ اس وقت ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ویول تھے۔ وہ اس مشن کے ارکان کو ’دی تھری میگی‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ ہندوستان پہنچنے کے بعد وفد کے سربراہ سر اسٹیفرڈ کرپس نے کہا کہ ہم کھلے دل کے ساتھ ہندوستان آئے ہیں، ہمارے پاس کوئی اسکیم نہیں ہے، ہم ہر سیاسی مسئلے پر گفتگو کریں گے، ہمارے مشن کی آمد کا مقصد ہندوستان میں ایک عارضی حکومت کا قیام اور انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے درمیان موجود آئینی بحران کو ختم کروا کے انتقال اقتدار کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔

قائد اعظم کو مذاکرات کا اختیار

اس مشن نے ہندوستان پہنچنے کے بعد وائسرائے ہند، صوبائی گورنروں، ایگزیکٹو کونسل کے ارکان، کانگریس ، مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں سے مذاکرات کا آغاز کیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے وزارتی مشن سے مذاکرات کا مکمل اختیار قائداعظم محمد علی جناح کو دے دیا تھا، چنانچہ انہوں نے 4 اپریل 1946ء کو مشن کے ارکان سے ملاقات کی جو 3 گھنٹے تک جاری رہی۔

’بہت سے ہندوستان‘

ان مذاکرات میں قائداعظم نے وزارتی مشن کو واضح طور پر بتایا کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہندوستان ایک اکائی ہے لیکن ایسا ہے نہیں، ہندوستان فی الحقیقت بہت سے ہیں اور انگریزوں نے ان کو ایک کرکے رکھا ہے۔

دوسری جانب انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما تھے جو اکثریت کے زعم میں مبتلا تھے اور اکثریت کے بل پر مسلمانوں اور دیگر اقوام کو ہندوؤں کے زیر اثر رکھنا چاہتے تھے۔

شملہ میں مشترکہ کانفرنس

مشن کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔ ایسے میں مشن نے ان تمام رہنماؤں کو شملہ کے مقام پر مدعو کیا جہاں 5 مئی 1946ء سے 12 مئی 1946ء تک ان کی ایک مشترکہ کانفرنس منعقد ہوئی۔

اس کانفرنس میں آل انڈیا مسلم لیگ کی نمائندگی محمد علی جناح، لیاقت علی خان، نواب محمد اسماعیل اور سردار عبدالرب نشتر نے کی۔ جبکہ کانگریس کی جانب سے ابوالکلام آزاد، پنڈت جواہر لال نہرو، ولبھ بھائی پٹیل اور خان عبدالغفار خان شریک ہوئے۔

مؤقف میں فرق

دونوں سیاسی جماعتوں کے مؤقف میں بے حد فرق تھا۔ مسلم لیگ ہندوستان کی تقسیم چاہتی تھی جب کہ کانگریس ہندوستان کی سالمیت پر آنچ آنے کے لیے کسی بھی قیمت پر راضی نہ تھی۔

کیبنٹ مشن پلان

کانفرنس کے اختتام کے 4 دن بعد 16 مئی 1946ء کو وزارتی مشن نے ایک منصوبہ پیش کیا جسے ہندوستان کی تاریخ میں کیبنٹ مشن پلان یا وزارتی مشن منصوبہ کہا جاتا ہے۔

اس منصوبے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ہندوستان کی دونوں بڑی جماعتوں کے نقطہِ نظر کو ایک خاص تناسب کے ساتھ شامل کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے 2 حصے تھے، ایک قلیل المیعاد جس کے تحت ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں لانا تھا اور دوسرا طویل المیعاد جس کے تحت کم از کم دس سال تک ہندوستان کی تقسیم کو روکنا تھا۔

صوبائی خود مختاری کی تجویز

منصوبے میں کہا گیا تھا کہ برصغیر کے تمام صوبوں پر مشتمل ایک کُل ہند یونین قائم کی جائے، جو امور خارجہ، دفاع اور مواصلات کی ذمہ دار ہو ،جبکہ بقیہ تمام امور صوبوں کے پاس ہوں، صوبوں کو اختیار ہوگا کہ وہ باہم گروپ بنالیں اور ہر گروپ اپنا رستہ مرتب کرے۔ ہر 10 سال کے بعد صوبوں کو یہ بھی اختیار ہوگا کہ وہ اپنی اسمبلی کی اکثریت رائے سے آئین میں تبدیلی کا مطالبہ کرسکیں۔

صوبوں کی گروپوں میں تقسیم

اس منصوبے میں یہ بھی تجویز کیا گیا تھا کہ برصغیر کے تمام گیارہ صوبوں کو تین گروپوں میں تقسیم کردیا جائے۔ گروپ ’اے‘ میں ہندو اکثریتی صوبے یوپی، بہار، اڑیسہ، سی پی، بمبئی اور مدراس، گروپ ’بی‘ میں مسلم اکثریت کے صوبے پنجاب، سندھ اور شمال مغربی سرحدی صوبہ اور گروپ ’سی‘ میں بنگال اور آسام کے صوبے شامل ہوں گے۔ نئے آئین کے نفاذ سے پہلے ایک عبوری حکومت کا قیام بھی منصوبے میں شامل تھا۔

10 سال بعد صوبائی آزادی کی تجویز

منصوبے میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ 10 سال بعد کوئی بھی صوبہ اگر چاہے تو اپنی قانون ساز اسمبلی کی اکثریت کی خواہش پر اس معاہدے پر از سر نو غور کرنے کا مجاز ہوگا۔ تمام صوبے اس بات کے مختار ہوں گے کہ 10 سال گزرنے کے بعد وہ انفرادی طور پر یا گروپ کی صورت میں ہندوستانی یونین سے آزاد ہوسکتے ہیں۔

1 لاکھ افراد کے لیے ایک نشست

معاہدے میں صوبائی اسمبلیوں میں ہر صوبے کو اس کی آبادی کے تناسب سے نشستیں مختص کرنے کے لیے کہا گیا تھا اور 1 لاکھ افراد کے لیے ایک نشست مخصوص کی گئی تھی۔ برطانوی ہند کے 11 صوبے کو کل 290 نشستوں میں تقسیم کیا گیا تھا، جن میں 78 نشستیں مسلمانوں کے لیے مختص کی گئی تھی۔ اسی طرح ریاستوں کو بھی 93 نشستیں دی گئی تھیں۔

وزارتی مشن نے یہ شرط بھی عائد کی تھی کہ جو بھی سیاسی پارٹی اس منصوبے کو مسترد کرے گی اسے عبوری حکومت میں شمولیت کی دعوت نہیں دی جائے گی۔

پلان کی منظوری

6 جون 1946ء کو وزارتی مشن کے اس منصوبے کو مسلم لیگ نے کلی طور پر منظور کرلیا، کیوںکہ اس میں دیر یا بدیر ہندوستان کی تقسیم اور قیام پاکستان کے آثار موجود تھے ، جبکہ 25 جون 1946ء کو کانگریس نے پس و پیش سے کام لیتے ہوئے اسے جزوی طور پر منظور کرلیا۔

اکثریت کا زعم

ایسے میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ہندوستان کی تاریخ کو بدل دیا۔ 6 جولائی 1946ء کو کانگریس کا سالانہ اجلاس بمبئی میں منعقد ہوا جس میں مولانا ابوالکلام آزاد کی جگہ پنڈت جواہر لال نہرو کو کانگریس کا صدر منتخب کرلیا گیا۔ کانگریس کا صدر منتخب ہونے کے بعد پنڈت نہرو اکثریت کے زعم میں یہ بیان بھی دے بیٹھے کہ ان کی جماعت سردست تو اس منصوبے کو منظور کر رہی ہے مگر بعد میں وہ اس میں تبدیلی کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ بالفاظ دیگر وہ قلیل المیعاد منصوبے کو تو منظور کررہے تھے مگر طویل المیعاد منصوبے کے بارے میں ان کی رائے واضح نہیں تھی۔

یوم راست اقدام منانے کا اعلان

اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزارتی مشن اپنے اعلان کے مطابق آل انڈیا مسلم لیگ کو عبوری حکومت بنانے کی پیش کش کرتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ 29 جولائی 1946ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے منصوبے کی منظوری واپس لے لی۔ اب اس نے حصول پاکستان کے لیے از سر نو جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا اور 16 اگست 1946ء کو ہندوستان بھر میں یوم راست اقدام منانے کا اعلان کردیا۔

وزارتی مشن کی ناکامی

29 جون 1946ء کو وزارتی مشن اپنی ناکامی کے بعد لندن واپس چلا گیا۔ اب سبھی مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ وزارتی مشن کا منصوبہ ہندوستان کو متحد رکھنے کی آخری ممکنہ کوشش تھا اور ہندوستان کو متحد رکھنے کی اس آخری کوشش کو قائد اعظم یا مسلم لیگ نے نہیں بلکہ پنڈت جواہر لال نہرو اور کانگریس نے سبوتاژ کیا تھا۔

وزارتی مشن کی ناکامی کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم لیگ حصول پاکستان کے لیے اور بھی محکم اور متحرک ہوگئی اور کوئی سوا سال بعد ہی اس کی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آگیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp