چوکیدار  

پیر 22 ستمبر 2025
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایسا نہیں ہوا کہ پاکستان کو اس سے پہلے ترقی کے مواقع نہیں ملے۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ اس سے پہلے کبھی ہمیں روشنی کی کرن نظر نہ آئی ہو۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ ہمیں امت مسلمہ میں ممتاز مقام ملنے کا پہلے موقع نہیں ملا۔ یہ سب بارہا ہوا۔ لیکن ہم نے یہ مواقع گنوا دیے۔ ملک کے مفاد سے زیادہ ذاتی مفاد کو ترجیح دی اور تاریخ میں مقام حاصل کرنے کے بجائے ذات کو ترجیح دی اور وہ تمام مواقع گنوا دیے۔ اس دفعہ صورت حال کتنی مختلف ہے۔ پہلے کیا ہوا تھا اور اب کیا کرنا ہے؟ ماضی سے صرف اتنا پردہ اٹھانا ہے۔

 وقت بہت بیت گیا مگر ماضی کی راکھ کبھی کبھی کریدنی چاہیے تاکہ دھواں تو اٹھے، تاکہ چنگاری تو بھڑکے، اپنی غلطیوں پر ماتم تو ہو۔ اپنے اعمال کا احوال تو بیان ہو۔

یاد رکھیں وقت گزرنے سے تاریخ دفن نہیں ہوتی بلکہ اس کے لگائے زخم گہرے ہو جاتے ہیں۔ اس کا سبق زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔ ماضی کی غلطیاں زیادہ فاش نظر آنے لگتی ہیں۔ تاریخ آپ کو ذات اور وقت کے حصار سے نکال کر منظر کو دور سے رپیٹ ٹیلی کاسٹ میں دیکھنے کا موقع دیتی ہے۔

بھٹو صاحب کے دور میں اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی تھی۔ وہ ملک جو ابھی دو لخت ہوا تھا اس کا تشخص بحال ہوا۔ سعودی رہنما شاہ فیصل شہید نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ میزبانی کو قبول فرمایا۔ مسلم ممالک کا ایک فعال بلاک بننے کی بات ہوئی۔ غربت کے اندھیرے چاک کرنے کا اعلامیہ آیا۔ ایک دوسرے کے بازو بننے کا حوصلہ ملا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا وہ کارنامہ تھا جس سے امریکا  اور یورپ خوفزدہ ہو گئے تھے۔ پھر قسمت کا پھیر الٹا چلا۔ شاہ فیصل کو شہید کر دیا گیا۔ بھٹو پھانسی پر جھول گئے۔ ہماری جھولی میں اندھیرے تھے وہ اندھیرے ہی رہ گئے۔

اس کے بعد ایک موقع آیا، افغان جہاد کا۔ جہاں دو سپر طاقتوں کی جنگ تھی۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ کسی ایک فریق کو شکست ہونا تھی۔  روس گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا تھا۔ درمیان میں افغانستان اور پاکستان حائل تھے۔ ضیاالحق کا دورتھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا کو ہماری ضرورت تھی ۔ جب امریکا اور یورپ دست بستہ ہم سے ملتمس تھے۔  امریکا کی سلامتی کی ذمہ داری ہم کو سونپ دی گئی تھی۔

آج جو لوگ یہ  منظر دیکھتے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف سے ایک، ایک ارب ڈالر کے لیے درخواست کر رہے ہوتے ہیں انہیں شاید یاد نہ ہو کہ ہم نےا س وقت امریکی امداد کو مونگ پھلی کہہ کر ٹھکرا دیا تھا۔  ہم اپنی مرضی کے فیصلے کر رہے تھے۔ اس وقت ہم نے روس کو شکست دینا تھی لیکن صرف روس کو شکست دینا ہمارا منصب اور مقام نہیں تھا۔ ہم نے اپنے ملک کو بھی ترقی دینا تھی۔ یہاں ڈیم بننے تھے۔ یہاں یونیورسٹیاں اور اسکول کھلنے تھے، سڑکیں تعمیر ہونا تھیں۔ ترقی ہونی تھی۔ ہم روس سے جنگ میں اس قدر غرق ہوئے کہ  ہم اپنی حالت سنوارنا بھول گئے۔ ہم نے روس کو برباد کر دیا لیکن برباد ہم خود بھی ہو گئے۔ اس جنگ سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ہمارے حصے میں صرف ایسا نقصان آیا جو اب بھی ہم بھر رہے ہیں۔

انیس سو اٹھانوے میں ہم  نےا یٹمی تجربات کیے ۔ بھارت کو ناکوں چنے چبو ادیے۔ اس سے پہلے بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کیے۔ دنیا بھر میں ہنگامہ مچ گیا۔ لوگ کہنے لگے کہ اس خطے کا چوہدری ایک ہی ہے۔ بھارت منی سپر پاور ہے۔ لیکن اس منی سپر پاور کا چند دنوں مِں ہی بھرکس نکل گیا جب پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کیے۔ اس واقعے کی دھاک لمحوں میں پوری دنیا میں پھیل گئی۔ بھارت کی برتری دنوں میں خاک میں مل گئی۔ دنیا اس واقعے پر بھی ہماری طرف بہت چاہ سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے بعد ترقی کا سفر شروع ہونا تھا مگر ہم نےا س موقع کو بھی ضائع کر دیا۔ ایٹمی دھماکے کرنے والے کو قید کیا اوراندرونی خلفشار کا شکار رہے۔ دنیا جو ہم پر فخر کر رہی تھی ہم پر ہنسنے لگی ۔ ہم جو تماشا کر رہے تھے خود تماشا بن گئے۔

نائن الیون بھی ایک موقع تھا، جب دنیا کو ہماری عسکری قوت کی ضرورت پڑی تھی۔ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو دہشتگردی کے خوف سے پاکستان نجات دے سکتا تھا۔ ہم اس وقت امریکا سے ملکی ترقی کے لیے بہت کچھ لے سکتے تھے مگر ہم نے بارگینگ درست نہیں کی، ہم نے ان کے تو سارے کام کیے مگر اپنی باتیں ان سے منوانا بھول گئے۔ ایک کال پر ہم ایسے ڈھیر ہوئے کہ اس کے بعد دیر تک نہیں اٹھ سکے۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں رہا کہ تاریخ ایسے مواقع بار بار نہیں دیتی۔

پاک سعودی دفاعی معاہدہ ایک تاریخی دستاویز ہے۔ اس کے معنی اور مفاہیم بہت وسیع ہیں۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے۔ یہ ایک عہد ساز معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کے پس منظر میں ہماری وہ کامیابی ہے جو ہم نے معرکہ حق میں حاصل کی ہے۔ اس دن سے بھارت کے ستارے گردش میں ہیں اور پاکستان کا ستارہ عروج پر ہے۔ اس جنگ کے بعد اسرائیل کی قطر میں جارحیت نے اس معاہدے کے امکانات کو مہمیز بخشی ہے۔  اب ایک بار پھر دنیا کی نظریں ہم پر مرکوز ہیں۔ اب ایک بار پھر مسلم امہ کی قیادت ہماری منتظر ہے۔ اب ایک بار پھر ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنی بات منوا سکیں۔ اس موقع کو پہلے مواقع کی طرح ضائع کیا تو کف افسوس ملنے کے سوا ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ ہمیں مسلم امہ کی خدمت بھی کرنی ہے، دنیا میں بھی باوقار نام بنانا ہے۔ لیکن اس کےساتھ اس ارض پاک کو بھی ترقی دینی ہے۔ یہاں سے افلاس ، بے روزگاری اور جہالت کو ختم کرنا ہے۔ اب ترقی کےسوا ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔

تاریخ کی یہ ساعت مبارک ہے۔ یہ لمحہ عظیم ہے۔ ہم سے مسلم امہ امیدیں وابستہ کر رہی ہے۔ ہم سے دنیا ملتمس ہو رہی ہے۔ یہ وقت ماضی کے مواقع سے اس لیے مختلف ہے کہ اس وقت ہم سے نہ صرف ایٹمی قوت کے طور پر کچھ توقعات لگائی جا رہی ہیں بلکہ اس کے بدلے ہم سے حرم پاک کی حفاظت کی سعادت بھی عطا کی جا رہی ہے۔ وہ حرم پاک جہاں کا ذکر کرتے پلکیں وضو کرتی ہیں۔ ہمیں اس زمیں کی حفاظت کا ذمہ بھی مل رہا ہے اور مسلم امہ کی پاسبانی بھی تفویض کی جا رہی ہے۔

شہباز شریف خوش قسمت ہیں کہ یہ اعزاز انہیں نصیب ہوا کہ طیاروں کی سلامی ان کو دی گئی۔ شہزادہ محمد بن سلمان ان کے استقبال کے لیے آئے۔ معاہدہ  فیلڈ مارشل کی معاونت میں ایک مقدس سرزمیں پرہوا۔ ایک لمحے کو سوچیں یہی حرمین شریفین تھے، یہی مقامات مقدسہ تھے۔ اور یہاں پی ٹی آئی کے لوگ تھے جنہوں نے عورتوں کو گالیاں دیں، بال کھینچے۔ جہاں ادب سے نگاہ نہیں اٹھتی وہاں سیاسی نعرے لگائے۔ سیاسی نفرت کی دکان سجائی۔

آخری بات  فوج کو لوگ نفرت میں چوکیدار کہہ کر پکارتے تھے۔ جسے چوکیدارکا الزام دیتے تھے، اسے پاسبانی کا فرض سونپ دیا گیا۔ اب یہ الزام نہیں اعزاز ہے۔ تضحیک نہیں، توقیر ہے۔ ہتک نہیں، سعادت ہے۔ اس مقام کی جہاں کی خاک کے ایک ذرے پر ساری مسلم امہ دل و جان سے قربان ہے۔ اس سے بڑھ کر سعادت دنیا میں کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ اس سے  بڑھ کر عظیم حفاظت کوئی اور نہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ٹرمپ نے چارلی کرک کو ’امریکی آزادی کا شہید‘ قرار دیدیا، بیوہ کا قاتل کو معاف کرنے کا اعلان

اسحاق ڈار نیویارک پہنچ گئے، جنرل اسمبلی اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے

شام میں عبوری پارلیمنٹ کے انتخابی عمل کا اعلان، نئی پارلیمان کی ابتدائی مدت 30 ماہ ہوگی

امریکا ایٹمی ہتھیاروں سے دستبرداری کا مطالبہ چھوڑ دے تو مذاکرات کے لیے تیار ہیں، کم جونگ

‘میجر عدنان میرا ساتھی، بھانجا اور داماد ، وہ اب پوری قوم کا فخر ہے’

ویڈیو

ٹرمپ نے چارلی کرک کو ’امریکی آزادی کا شہید‘ قرار دیدیا، بیوہ کا قاتل کو معاف کرنے کا اعلان

اسحاق ڈار نیویارک پہنچ گئے، جنرل اسمبلی اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے

‘میجر عدنان میرا ساتھی، بھانجا اور داماد ، وہ اب پوری قوم کا فخر ہے’

کالم / تجزیہ

بُھولی یا بھلّی

دلوں کو جوڑنے والے کرکٹرز

عدلیہ بمقابلہ عدلیہ