امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایچ ون بی ویزا پروگرام میں بڑی اصلاحات کے اعلان کے بعد پیر کے روز بھارتی ٹیکنالوجی اسٹاکس کو بھاری مندی کا سامنا ہے۔
نئی امریکی پالیسی کے تحت ہر نئی ایچ ون بی درخواست پر ایک لاکھ ڈالر کی بھاری فیس عائد کی گئی ہے، جس سے ان آؤٹ سورسنگ کمپنیوں کے منافع پر شدید دباؤ پڑنے کا خدشہ ہے جو امریکی مارکیٹ پر زیادہ انحصار کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی ویزا فیس میں اضافہ، غیر ملکیوں کو کن مسائل کا سامنا کرنا ہوگا؟
ٹاتا کنسلٹنسی سروس کے حصص میں 3.4 فیصد کمی، انفوسس کے حصص میں 3.9 فیصد گراوٹ اور ٹیک مہندرا کے شیئرز میں 6.5 فیصد کی نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی، جو گزشتہ کئی مہینوں کی سب سے بڑی مندیوں میں شمار ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق نئی لاگت سے ہر ایچ ون بی ملازم پر منافع تقریباً ختم ہو جائے گا، جس کے باعث کمپنیوں کو مقامی بھرتیوں، سب کانٹریکٹنگ اور آف شورنگ پر زیادہ انحصار کرنا پڑے گا۔
مزید پڑھیں: امریکی ورک ویزا فیس میں ہوشربا اضافہ، 71فیصد بھارتی لپیٹ میں آگئے
بعض ادارے جیسے ایچ سی ایل ٹیکنالوجیزاورانفوسس، جو پہلے ہی ویزے پرکم انحصار کرتے ہیں، اس دباؤ کو نسبتاً بہتر انداز میں سہہ سکتے ہیں، تاہم ایچ ون بی ماڈل سے جڑی کمپنیوں کو مالی سال 2027 سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔
جے پی مورگن کے مطابق ایچ ون بی کیٹگری کے ملازمین کی لاگت میں نمایاں اضافہ آؤٹ سورسنگ کمپنیوں کو مجبور کرے گا کہ وہ امریکا میں مقامی بھرتیوں کو بڑھائیں اور زیادہ سے زیادہ کام بھارت سے ہی آف شور کریں۔

یہ رجحان بھارتی آئی ٹی ماڈل کے اس لاگت کے فائدے کو کمزور کر سکتا ہے، جس نے اسے کئی دہائیوں تک عالمی مارکیٹ میں نمایاں رکھا۔
یہ دھچکا ایسے وقت میں آیا ہے جب بھارت کی 250 ارب ڈالر مالیت کی آئی ٹی سروسز انڈسٹری پہلے ہی کمزور سہ ماہی نتائج، بڑے کلائنٹس کی جانب سے اخراجات میں کمی اور بڑھتی برطرفیوں سے دوچار ہے۔
مزید پڑھیں: امریکی ویزا آسانی سے کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے؟
اس سال آئی ٹی انڈیکس میں 15 فیصد سے زیادہ کمی دیکھی جا چکی ہے، جو نِفٹی 50 انڈیکس میں 7 فیصد اضافے کے بالکل برعکس ہے۔
فی الحال سرمایہ کار اس خدشے میں مبتلا ہیں کہ صدر ٹرمپ کی نئی پالیسی بھارتی آئی ٹی کمپنیوں کو اپنے دہائیوں پرانے کاروباری ماڈل کو دردناک انداز میں ازسرنو ترتیب دینے پر مجبور کرے گی۔














