امریکی کالج آف اوبسٹیٹریشینز اینڈ گائناکالوجسٹس نے نئی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ حاملہ خواتین کو بھنگ (کینابِس) کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے اور ڈاکٹروں کو چاہیے کہ وہ مریضوں سے حمل سے پہلے، دورانِ حمل اور بعد از حمل بھنگ کے استعمال کے بارے میں لازمی سوال کریں۔
یہ سفارشات ایسے وقت سامنے آئی ہیں جب امریکا میں بھنگ کے استعمال میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جو اس کی بڑھتی ہوئی قانونی حیثیت اور سماجی قبولیت کا نتیجہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ٹرمپ ’بھنگ‘ کو کم خطرناک دوا قرار دینے کا سوچ رہے ہیں، اسٹاکس میں تیزی
امریکی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آن ڈرگ ابیوز کے مطابق 2019 میں 4 لاکھ 50 ہزار سے زائد خواتین پر کی گئی ایک تحقیق میں سامنے آیا کہ 2002 سے 2017 کے درمیان حاملہ خواتین میں بھنگ کے استعمال کی شرح دوگنی ہو گئی۔
ماہرین کے مطابق بھنگ میں موجود نشہ آور جزو ٹی ایچ سی بچے تک پہنچ سکتا ہے اور دودھ میں بھی منتقل ہو سکتا ہے۔ مزید یہ کہ جنین میں 5 ہفتوں کی عمر میں ہی کینابینوئڈ ریسپٹرز پائے جا سکتے ہیں جس سے قبل از وقت نمائش کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق دورانِ حمل بھنگ کے استعمال سے بچے کا وزن کم ہونے، نوزائیدہ کی انتہائی نگہداشت یونٹ میں داخلے، پیدائش کے وقت اموات اور طویل مدتی مسائل جیسے توجہ کی کمی اور سیکھنے میں مشکلات کا خدشہ بڑھ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: قلات میں کئی ایکٹر پر محیط بھنگ کی فصل تباہ کر دی گئی
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ بھنگ کے استعمال پر مکمل اعداد و شمار اب بھی محدود ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کو بھنگ سے متعلق سوال غیر جانبدارانہ اور محتاط انداز میں کرنا چاہیے تاکہ مریضوں میں خوف نہ پیدا ہو۔