چیف ایگزیکٹو آفیسر ذیابیطس سینٹر اسلام آباد (TDC) ظہیرالدین بابر نے کہا ہے کہ عدالت کے حکم امتناع کے باوجود نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے عملے کی کارروائی سے اسپتال کا نظام بری طرح متاثر ہوا، جس کے باعث درجنوں شوگر کے مریض علاج سے محروم ہوگئے اور عملے کو بھی شدید ذہنی و جسمانی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ این ایچ اے کے یکطرفہ اقدام نے نہ صرف طبی اصولوں بلکہ انسانی ہمدردی کے تقاضوں کو بھی مجروح کیا ہے۔
نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں بورڈ ممبران طاہر عباسی، آصف شہزاد اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ظہیرالدین بابر نے بتایا کہ ذیابیطس سینٹر نے 2009 میں یہ زمین خریدی اور بعد ازاں ٹرسٹ کے نام منتقل کی گئی جس کے تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے تھے، مگر 2017 میں این ایچ اے نے دعویٰ کیا کہ یہ زمین 2003 میں ایکوائر کی گئی تھی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر این ایچ اے کا دعویٰ درست ہے تو یہ زمین اسپتال اور پھر ٹرسٹ کے نام کیسے منتقل ہوئی؟
مزید پڑھیں: خاموش قاتل: ذیابیطس کی تشخیص میں تاخیر خطرناک، ماہرین کا انتباہ
انہوں نے الزام عائد کیا کہ این ایچ اے کے عملے نے بغیر پیشگی نوٹس فلاحی اسپتال پر دھاوا بولا، املاک کو نقصان پہنچایا، مہنگے آلات اپنے قبضے میں لے لیے اور بجلی کا نظام تباہ کردیا، جس سے زیر علاج مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کے مطابق ذیابیطس سینٹر ایک مستند فلاحی ادارہ ہے جو 60 فیصد سے زائد مستحق مریضوں کو مفت علاج فراہم کرتا ہے اور پنجاب، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر سمیت مختلف علاقوں سے مریض یہاں علاج کے لیے آتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں بچوں میں ذیابیطس کا مرض خطرناک حد تک بڑھنے لگا، وجوہات اور علامات؟
ظہیرالدین بابر نے کہا کہ این ایچ اے کی اس کارروائی سے سینکڑوں مریض متاثر ہوئے، اور ملک بھر میں لگائے جانے والے کیمپس بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے سپریم کورٹ میں این ایچ اے کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی کہ اس واقعے کی فوری تحقیقات کرائی جائیں اور اسپتال کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔