ملائیشیا کی فضاؤں میں پشاور کی خوشبو

بدھ 24 ستمبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جب میں ملائیشیا کے دارالحکومت کوالا لمپور کی ایک مصروف اور رنگین مارکیٹ جی ایم پلازہ میں داخل ہوئی تو  ایک ایسی خوشبو نے میرا استقبال کیا جو مجھے اپنی اپنی سی لگی۔ میں اس خوشبو کے تعاقب میں ایک چھوٹی سی دکان تک پہنچ گئی جو جی ایم پلازہ کی تیسری منزل پر تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ملائیشیا کی ریاست ترنگانو میں جمعہ کی نماز نہ پڑھنے پر 2 سال قید کی سزا کا قانون منظور

جی ایم پلازہ بظاہر کسی عام پاکستانی پلازے جیسا ہی لگتا تھا۔ اس کے طرزِ تعمیر سے اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ عمارت کافی پرانی ہے، جس نے ماضی کے کئی رنگ دیکھ رکھے تھے۔ جیسے ہی ہم اندر داخل ہوئے، ایک چیز نے مجھے دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبور کردیا۔

وہاں ایسکلیٹر نصب تھا۔ اتنی پرانی عمارت میں اس جدید سہولت کا وجود ایک خوشگوار حیرت تھی۔ یہ اس بات کی علامت بھی تھی کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بازار بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

پشاور سے کوالالمپور تک

اس خوشبو نے میرے قدم روک لیے۔ میرے ساتھ میرے 2 کولیگز بھی تھے اور دونوں ہی پشتون تھے۔ ہم جیسے ہی دکان میں داخل ہوئے تو دنیا کے بڑے برانڈز جیسے ڈیور، چینل، وربرری اور کئی دیگر خوشبوئیں اُس کی دکان میں نہایت سلیقے سے سجی ہوئی تھیں۔ اور ایک پشتون جس کا نام محمد عدنان خان تھا،  ویڈیو کال پر کسی سے بات کرنے میں مصروف تھا۔ پشتو میں گفتگو جاری تھی۔ جونہی کال ختم ہوئی تو میرے کولیگز نے اسے گرمجوشی سے سلام کیا اور پشتو میں حال احوال پوچھا۔

کوالالمپور میں پشاور کا کونا

عدنان نے بتایا کہ اس کا تعلق بھی پاکستان سے ہے۔ اس کا گھر پشاور سٹی میں ہے۔ عدنان کی مہمان نوازی کا بھی جواب نہ تھا۔ ہماری گفتگو کے دوران انہوں نے خاص پشاوری قہوہ منگوا کر پیش کیا۔ ایک غیرملکی سرزمین پر قہوہ کی خوشبو اور ذائقہ ایسا لگا جیسے لمحہ بھر کو ہم سب واپس پشاور کے کسی کونے میں بیٹھے ہوں۔

محمد عدنان گزشتہ 9 برس سے ملائیشیا کے دارالحکومت کوالا لمپور میں رہائش پذیر ہیں۔ اور وہاں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ پرفیومز کا کاروبار کرتے ہیں۔ محمد عدنان تقریباً سال یا ڈیڑھ سال بعد فیملی کے پاس پاکستان آتے ہیں۔

یہ صرف ایک عدنان خان کی کہانی نہیں ہے۔ کوالا لمپور، خاص طور پر جی ایم پلازہ میں  بڑی تعداد میں پاکستانی پشتون نوجوان محنت کر رہے ہیں اور کامیاب کاروبار کر رہے ہیں۔

’پشتون پلازہ‘

اگر اس جی ایم پلازہ کو ’پشتون پلازہ‘ کہہ دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ کیونکہ اس پلازہ میں اکثریت پشتونوں کی تھی۔ کوئی میک اپ کی مصنوعات فروخت کر رہا ہے، کوئی بیگز، کوئی کھلونے اور کوئی الیکٹرانکس کا کاروبار کر رہا ہے۔ تاہم ان سب میں ایک بات مشترک ہے۔ لگن، خلوص اور بے مثال مہمان نوازی۔

مزید پڑھیے: پاکستان ہاکی ٹیم کی جانب سے ملائیشیا میں ہوٹل بلز کی عدم ادائیگی کا انکشاف

دلچسپ بات یہ ہے کہ جس جگہ کو ہم مزاحاً ’پشتون پلازہ‘ کہہ رہے تھے، اس کا اصل نام جی ایم لورونگ حاجی طیب ہے۔ جب ہم نے پہلی بار یہ نام سنا، تو دل میں یہی خیال آیا کہ شاید اس پلازے کے مالک بھی پاکستان سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ اور ہو سکتا ہے کہ وہ بھی پشاور، چارسدہ یا بونیر کے کسی گاؤں سے آئے ہوئے کوئی پشتون ہوں، مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ’حاجی لورونگ‘ کا تعلق دراصل خود ملائیشیا سے ہے، اور یہ نام مقامی ثقافت اور زبان کا عکاس ہے۔

ملائیشیا میں پاکستانیوں کی بڑھتی تعداد

بیورو آف امیگریشن کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، سال 2020 میں 2،301، 2021 میں صرف 106، 2022 میں 6،175، 2023 میں 20،905، 2024 میں 5،790، اور 2025 میں اب تک 1،975 پاکستانی روزگار کے لیے ملائیشیا جا چکے ہیں۔

یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ملائیشیا میں پاکستانیوں کی موجودگی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر کاروباری شعبے میں۔

کامیابی کی ایک دوسری کہانی

عدنان کی طرح جی ایم پلازہ میں ہر دوسری دکان پر پشتون نوجوان محنت کرتے نظر آتے ہیں۔ انہی میں ایک بونیر سے تعلق رکھنے والے رحمت اللہ خان بھی ہیں۔ رحمت اللہ گزشتہ 14 برس سے ملائیشیا میں مقیم ہیں اور میک اپ مصنوعات کا کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کی دکان رنگ برنگ کاسمیٹکس سے بھری ہوئی تھی۔ لپ اسٹکس، نیل پالش اور برانڈڈ میک اپ کٹس قطار در قطار سجی تھیں۔

رحمت اللہ نے بتایا کہ جب وہ پہلی بار ملائیشیا آئے تو ان کے پاس زیادہ وسائل نہیں تھے۔ چھوٹی سی دکان سے آغاز کیا، دن رات محنت کی اور آج وہ نہ صرف اپنا کاروبار کامیابی سے چلا رہے ہیں بلکہ دیگر پاکستانیوں کے لیے بھی روزگار کے مواقع پیدا کر رہے ہیں۔ ان کے بقول ’محنت کر کے اگر عزت کی روٹی کمائی جائے تو انسان کا سر ہمیشہ بلند رہتا ہے۔‘

رحمت اللہ کا ماننا ہے کہ وہ اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت اور زبان بھی یہاں لے کر آئے ہیں۔ وہ اپنی ثقافت سے کٹ کر نہیں جی سکتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی دکان پر آنے والے گاہک صرف میک اپ خریدنے نہیں آتے بلکہ اکثر ان سے دوستی، گپ شپ اور اپنائیت کا رشتہ بھی قائم کرتے ہیں۔

پردیس کا دکھ

مگر جب بات پاکستان کے حالیہ سیلاب کی آئی تو رحمت اللہ کی آواز بھرا گئی۔ انہوں نے دل گرفتہ لہجے میں بتایا کہ ’بونیر میں ہمارے خاندان کا بھی بہت نقصان ہوا ہے۔ میرے کئی رشتہ دار اس سیلاب کی نذر ہوگئے۔ گھر اجڑ گئے، کھیت کھلیان پانی میں بہہ گئے۔ پردیس میں رہتے ہوئے سب سے بڑا دکھ یہی ہوتا ہے کہ آپ دور بیٹھے کچھ نہیں کر سکتے، صرف دعائیں کرتے رہتے ہیں’۔

خوشبو جو کرداروں سے بکھرتی ہے

ملائشیا میں رہنے والے یہ پشتون صرف کاروبار نہیں کر رہے، بلکہ اپنی ثقافت، اپنی زبان اور اپنی خوشبو بھی ساتھ لے کر آئے ہیں۔ ان کی دکانیں صرف تجارتی مقامات نہیں، بلکہ ایسی جگہیں ہیں جہاں ایک غیرملکی سرزمین پر بھی ’اپنائیت‘ محسوس ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: ہیرو اوپن ملائیشیا انٹرنیشنل تائیکوانڈو چیمپیئن شپ میں پاکستان کے 4 میڈلز

ان نوجوانوں نے نہ صرف اپنی محنت سے یہاں جگہ بنائی ہے بلکہ پاکستان کا نام بھی روشن کیا ہے۔ عدنان، رحمت اللہ اور اس جیسے بے شمار نوجوان یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اگر نیت صاف ہو، ارادہ پختہ ہو اور محنت سچی ہو، تو خوشبو صرف دکانوں میں نہیں، کرداروں سے بھی بکھرتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

لاہور میں ہیوی وہیکلز ڈرائیونگ ٹریننگ اسکول کا قیام، وزیر اعلیٰ پنجاب کا محفوظ سفر یقینی بنانے کا وژن

ملک کے شمال مشرق میں زلزلے کے جھٹکے، لوگ گھروں سے باہر نکل آئے

ڈیرہ اسماعیل خان: داناسر میں المناک ٹریفک حادثہ، ایک ہی خاندان کے 11 افراد جاں بحق

ایشیا کپ، 41 سال بعد پاک-بھارت فائنل ہونے کو تیار، ٹورنامنٹ فائنلز میں پاکستان کا پلڑا بھاری

پی ٹی سی ایل گروپ اور مرکنٹائل نے پاکستان میں آئی فون 17 کی لانچ کا اعلان کردیا

ویڈیو

’میڈن اِن پاکستان‘: 100 پاکستانی کمپنیوں نے بنگلہ دیشی مارکیٹ میں قدم جمالیے

پولیو سے متاثرہ شہاب الدین کی تیار کردہ الیکٹرک شٹلز چینی سواریوں سے 3 گنا سستی

وائٹ ہاؤس: وزیراعظم اور امریکی صدر کے درمیان اہم ملاقات ختم، فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی شریک تھے

کالم / تجزیہ

بگرام کا ٹرکٖ

مریم نواز یا علی امین گنڈا پور

پاکستان کی بڑی آبادی کو چھوٹی سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جا سکتی