بگرام کا ٹرکٖ

جمعرات 25 ستمبر 2025
author image

رعایت اللہ فاروقی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پہلا دور صدارت ان کے گلے کو آگیا تھا۔ انہیں کسی چیز کا کچھ پتا ہی نہ تھا۔ ابھی حلف ہی نہ اٹھایا تھا کہ ان کے نامزد مشیر قومی سلامتی جنرل فلنگ ایف بی آئی کے ہتھے چڑھ گئے۔

صدارت شروع ہوئی تو جلد اپنی ہی ٹیم ان کا دھڑن تختہ کروانے پر تل گئی۔ بات مواخذے بلکہ مواخذوں تک پہنچ گئی۔ یوں اس دور صدارت کے بعد وہ خود ہی یہ کہتے پائے گئے کہ ہاں مجھے کچھ بھی سمجھ نہ آرہا تھا۔

یوں لگتا ہے اس دوسرے دور صدارت میں ان کی ایک مستقل حکمت عملی یہ ہے کہ خود کو ڈیڑھ شانڑاں باور کرایا جائے۔ اس کے لیے وہ طرح طرح کی مضحکہ خیز کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر اس معاملے میں ان کی ایک مستقل کوشش یہ بھی رہتی ہے کہ لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جائے۔ اور جب وہ ٹرک کا پیچھا شروع کردیں تو یہ خود پتلی گلی سے کٹ لیتے ہیں۔

کینیڈا کو امریکا کی 51 ویں ریاست بنانے اور گرین لینڈ کے حصول والا شوشہ ان کی ایسی ہی بتیاں تھیں۔ اسی ضمن میں ان کا نیا ٹرک افغانستان کا بگرام ایئربیس ہے۔ ہم اسے ٹرک کی بتی 2 وجوہات سے کہہ رہے ہیں۔ پہلی وجہ یورپ میں ہے اور دوسری ایشیا پیسفک میں۔

یہ بھی پڑھیں: دفاعی معاہدہ، سیاسی امکانات

پچھلے ڈیڑھ 2 ہفتوں کے دوران چار یورپین ممالک کی جانب سے یہ واویلا دیکھا گیا کہ رشین ڈرونز اور لڑاکا طیارے ان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

ان ممالک میں پولینڈ، اسٹونیا، رومانیہ اور ڈنمارک شامل ہیں۔ ان میں قدرے سیریس معاملہ پولینڈ کا لگتا تھا مگر وہ بھی یوں ڈرامہ ثابت ہوا کہ اپنی رینج کے لحاظ سے وہ ڈرونز رشیا سے پولینڈ پہنچ ہی نہیں سکتے تھے۔ اور جب رشیا نے مشترکہ تحقیقات کی آفر کی تو پولینڈ انکار کرگیا۔ یورپین ممالک کے اس واویلے کی بابت آزاد عالمی ماہرین کی تقریبا متفقہ رائے یہ رہی کہ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کو یوکرین جنگ سے جوڑے رکھنے کی بھونڈی سی اسکیم ہے۔

اس رائے کے پیچھے ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ حالیہ ٹویٹ کارفرما تھی جس میں انہوں نے روس پر مزید پابندیوں کا معاملہ اس بات سے مشروط کردیا تھا کہ یورپ پہلے رشین تیل خریدنا بند کرے۔

یہ ٹویٹ اس قدر جارحانہ تھی کہ ٹرمپ اس کے آخر میں یہ بھی کہہ گئے کہ اگر یورپ رشین تیل کی خریداری بند کرنے کو تیار نہیں تو پھر میرا وقت ضائع نہ کیا جائے۔

یہ وہی مجوزہ پابدیاں تھیں جن کے متعلق ٹرمپ نے روس کو پہلے پچاس پھر 10 دن کی مہلت دی تھی۔ ٹرمپ اور پیوٹن کی الاسکا والی ملاقات کا یہ نتیجہ تو دنیا دیکھ ہی رہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ملاقات کے بعد سے یوکرین کا ذکر بہت ہی کم کردیا ہے۔

یوں جب مذکورہ ٹویٹ بھی سامنے آگئی تو لگ بھگ طے ہوگیا کہ وہ یوکرین جنگ سے خود کو لاتعلق کر رہے ہیں۔ اسی لیے عالمی ماہرین کی پہلی رائے یہی بنی تھی کہ 4 یورپین ممالک کا فضائی حدود کی خلاف ورزی والا ڈرامہ درحقیقت امریکا کو یوکرین سے باندھے رکھنے کی کوشش ہے۔

مگر 3 روز قبل رائٹر نے ایک آرٹیکل کے ذریعے خبر دی ہے کہ سرحدی خلاف ورزی والے واویلے کے پیچھے اصل وجہ یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں ٹرمپ انتظامیہ نے ای یو کو آگاہ کیا ہے کہ وہ بالٹک ریاستوں سے امریکی اڈے ختم کرنے کی تیاری میں ہے۔ کیونکہ امریکا اب ان فضول خرچیوں کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔

رائٹر کا کہنا ہے جب سے یہ میسج برسلز پہنچا ہے سرحدی خلاف ورزیوں والے ڈرامے روز کا معمول بن گئے ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ یورپ میں اپنی فوجی موجودگی میں بڑی کمی لانے کی بات ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کئی بار کہی تھی۔ اس معاملے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال یہ ہے کہ سوویت یونین واقعی خطرہ تھا۔ لیکن روس سے یورپ کو کوئی خطرہ نہیں۔ وہ تو تیس سال قبل نیٹو ممبرشپ بھی مانگ رہا تھا جو ہم نے نہیں دی۔

گویا یورپ میں یہ اندیشہ پہلے ہی موجود تھا کہ ٹرمپ وہاں امریکی فوج کی تعداد میں بڑی کمی کرسکتے ہیں۔ ایسے میں فی الحال اگرچہ صرف 3 بالٹک ریاستوں سے امریکا کی فوجی موجودگی ختم کرنے کی بات ہوئی ہے مگر امکان یہی ہے کہ اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو بات صرف بالٹک ریاستوں تک رہے گی نہیں۔

یوں گویا یورپین ممالک کا سرحدی خلاف ورزی والا واویلا یوکرین سے نہیں جڑا بلکہ یہ یورپین یونین کا اپنا معاملہ ہے۔ اور یہی ہے یورپ میں موجود وہ وجہ جس کے تحت ٹرمپ کی جانب سے بگرام ایئربیس والا شور محض ٹرک کی بتی لگاتا ہے۔

ایشیا پیسفک سے جڑی وجہ یہ ہے کہ امریکی فوج اور سی آئی اے کے سابق افسران انٹرویوز ہی نہیں بلکہ اپنے لکھے تجزیوں میں بھی یہ بات کر رہے ہیں کہ امریکا نے اچانک ایشیا پیسفک میں بھی فوجی موجودگی کم کرنی شروع کردی ہے۔ اس حوالے سے جنوبی کوریا اور جاپان کا خاص طور پر ذکر آیا ہے۔

جنوبی کوریا نے تو اس کی صاف تردید کی ہے لیکن پینٹاگون کی جانب سے معنی خیز تردید آئی۔ کہا گیا ’ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا‘ الفاظ کا یہ چناؤ صاف بتا رہا ہے کہ کچھ نہ کچھ چل رہا ہے۔ جاپان والے معاملے میں تو تردید بھی اب تک نہیں آئی۔ جاپانی جزیرے اوکی ناوا سے 9000 یو ایس میرین کم کرنے کا پلان بتایا جا رہا ہے۔ اور کہا جا رہا ہے کہ ان میں سے 4000 اب تک وہاں سے نکالے بھی جا چکے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جاپان اور کوریا دونوں کو مبینہ طور پر بتایا یہ گیا ہے کہ یہ فوجی گوام کے امریکی بیس پر منتقل کئے جا رہے ہیں جو پیسفک میں ہی واقع ہے۔

مزید پڑھیے: چارلی کرک کا قتل

لیکن ریٹائرڈ امریکی افسران کا کہنا ہے کہ یہ ان ممالک کی تسلی کے لئے کہا گیا ہے۔ فوجیوں کو گوام پہنچانے کے بعد اگلے مرحلے میں امریکا پہنچایا جا رہا ہے۔

ان ریٹائرڈ امریکی افسران کا کہنا ہے کہ چین کو گھیر نے کی بچی کھچی امیدیں بھی اس کی حالیہ وکٹری ڈے پریڈ سے دم توڑ گئی ہیں۔ اس پریڈ کے بعد امریکا اس معاملے میں یکسو ہوچکا کہ چین کا کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا۔ لہٰذا ایشیا پیسفک میں فوجی موجودگی کم کرنا ہی دانشمندی ہے۔ ان افسران کا کہنا ہے کہ امریکا اب بس بر اعظم امریکا پر ہی فوکسڈ رہنا چاہتا ہے۔ کیونکہ اس کی معاشی و سیاسی ہی نہیں بلکہ عسکری ساکھ بھی اب بڑے پنگے لینے والی نہیں رہی۔

اس پورے پس منظر میں یہ سوال غیر معمولی ہوجاتا ہے کہ اگر امریکا یورپ اور ایشیا پیسفک سے ہی اپنی فوجیں کم کر رہا ہے۔ بعض اڈے بھی بند کرنے کی تیاری میں ہے تو بگرام والے ایئربیس کا اس نے اچار ڈالنا ہے؟

اگر وہ وہاں سے چین کے خلاف کچھ کرنے کی سکت رکھتا تو افغانستان سے انخلاء ہی کیوں کرتا ؟ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ دوحہ مذاکرات میں یہ کوشش ہوئی تھی کہ طالبان کو کچھ امریکی ملٹری بیسز برقرار رکھنے پر آمادہ کیا جاسکے۔

مزید پڑھیں: بڑا جی ڈی پی، چھوٹی اوقات

مگر جب وہ ایک بیس بھی دینے کو تیار نہ ہوئے تو معاہدہ مکمل انخلاء کا ہی ہوا۔ سو ہمیں نہیں لگتا کہ ٹرمپ واقعی بگرام ایئربیس حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بگرام بس ایک ٹرک ہے جس کی بتی کے پیچھے دوڑنا دانشمندی نہ ہوگی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

پنجاب میں سیلاب نقصانات کے سروے کے لیے فوج تعینات کرنے کا فیصلہ

آئندہ چند روز میں غزہ کے حوالے سے کسی بڑی پیش رفت کا امکان ہے، امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف

’شریعت‘ سے متعلق ٹرمپ کا بیان اسلاموفوبک اور نسل پرستانہ ہے، میئر لندن صادق خان

طاقتور ترین ’سائیکلون رگا سا‘ کے بعد ہانگ کانگ میں زندگی معمول پر آنا شروع

شہباز شریف کا عالمی برادری سے کلائمیٹ فائنانس کے وعدے پورے کرنے کا مطالبہ

ویڈیو

کوئٹہ: ’آرٹسٹ کیفے تخلیق، مکالمے اور ثقافت کا نیا مرکز

’میڈ اِن پاکستان‘ نمائش: پاکستانی مصنوعات کی بنگلہ دیش میں دھوم مچ گئی

بلوچستان کی نئی ایوی ایشن پالیسی صوبے میں فضائی آپریشنز میں اضافہ کرے گی؟

کالم / تجزیہ

مریم نواز یا علی امین گنڈا پور

پاکستان کی بڑی آبادی کو چھوٹی سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جا سکتی 

مریم نواز بہت بدل گئی ہیں