محققین نے پہلی بار انسانی دل کے برقی نظام کو ڈیجیٹل شکل میں تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، جو دل کی دھڑکن کو منظم کرتا ہے۔
نئی تحقیق کے مطابق یہ پیش رفت دل کی بے ترتیب دھڑکن اور دل کے ناکارہ ہونے جیسے امراض کی تشخیص اور ان کے لیے موزوں علاج وضع کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:انسانی دماغ میں فاصلہ ناپنے کا نظام دریافت، یہ قدرتی گھڑی کیسے کام کرتی ہے؟
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ مطالعہ معروف سائنسی جریدے میڈیکل امیج انالسز میں شائع ہوا ہے، جسے چلی کی یونیورسٹیوں سے منسلک ادارے آئی ہیلتھ کے محققین نے انجام دیا ہے، یہ ادارہ میڈیکل امیجنگ، انجینیئرنگ، مصنوعی ذہانت اور طب میں مہارت رکھتا ہے۔

تحقیق کے سربراہ اور پوئنٹفیکل کیتھولک یونیورسٹی آف چلی کے اسسٹنٹ پروفیسر فرانسسکو ساہلی کے مطابق، ڈیجیٹل ہارٹ ٹوئن یعنی جڑواں نوعیت کے اس دل کا مقصد یہ ہے کہ اسے ایک مجازی مریض کے طور پر استعمال کیا جائے، جہاں علاج کو بغیر کسی خطرے کے آزمایا اور بہتر بنایا جا سکے۔
’اس طرح طبی طریقۂ کار کی بہتر منصوبہ بندی، زیادہ شخصی علاج اور زیادہ مؤثر نتائج ممکن ہوں گے۔‘
یہ ماڈل دل کے اندر موجود پورکنجے نیٹ ورک کو ڈیجیٹل طور پر تشکیل دیتا ہے۔ یہ نیٹ ورک درخت نما ساخت رکھتا ہے اور برف کے تودے جیسا فریکٹل پیٹرن بناتا ہے۔
مزید پڑھیں:کینیڈین شخص کی 20 سال بعد بینائی بحال، نایاب ’ٹوٹھ اِن آئی‘ سرجری کیا ہے؟
اس منصوبے پر تقریباً 7 سال تک کام کیا گیا، محققین کے مطابق پہلے بنائے گئے ماڈلز کو انفرادی مریضوں کے لیے ڈھالنا مشکل تھا، لہٰذا مصنوعی ذہانت کا سہارا لیا گیا۔
اس کے ذریعے بغیر کسی تکلیف دہ اور کیتھیٹر ڈالنے جیسے اندرونی طریقوں کے اصل مریضوں پر تجربات میں غیر معمولی برقی سرگرمیوں کا پتہ لگایا گیا۔

فرانسسکو ساہلی نے بتایا کہ جدید طب میں عمومی علاج کے بجائے اب شخصی یا تیربہدف ادویہ کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔ مثال کے طور پر دل کے ناکارہ ہونے کے علاج میں لگایا جانے والا پیس میکر تقریباً 30 فیصد مریضوں پر اثر نہیں کرتا، جس کی بڑی وجہ پیس میکر کی غلط جگہ پر تنصیب ہے۔
مزید پڑھیں:فیٹی لیور کے مریضوں میں قبل از وقت موت کا خطرہ کن 3 بیماریوں کے باعث بڑھ جاتا ہے؟
’ڈیجیٹل ہارٹ ٹوئن کے ذریعے ڈاکٹر ہزاروں ممکنہ مقامات پر پیس میکر آزما سکیں گے، وہ بھی مریض کو چھوئے بغیر، اس طرح علاج زیادہ مؤثر اور کم وقت طلب ہو جائے گا۔‘
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 1.9 کروڑ افراد دل کے امراض کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں، جو مجموعی اموات کا 32 فیصد بنتی ہیں، حالانکہ ان میں سے 80 فیصد کیسز کو بلڈ پریشر کنٹرول، سگریٹ نوشی ترک کرنے اور دیگر حفاظتی اقدامات سے روکا جا سکتا ہے۔

چلی کے اس ادارے کی تحقیقی ٹیم اب دو بڑے چیلنجز پر کام کر رہی ہے، ایک تو کمپیوٹنگ کی رفتار بڑھانا تاکہ مریض کا ڈیجیٹل ٹوئن حقیقی وقت کے قریب قریب بنایا جا سکے، دوسرا دل کی مکینیکل سرگرمی شامل کرنا تاکہ موجودہ برقی ماڈل کے ساتھ حرکت اور دباؤ کا ڈیٹا بھی جڑ سکے۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں بڑی طبی پیشرفت، جگر کا پہلا کامیاب ٹرانسپلانٹ
پروفیسر فرانسسکو ساہلی کے مطابق مستقبل میں یہ ٹیسٹ کسی بھی عام میڈیکل ٹیسٹ کی طرح ممکن ہوگا، جس کے نتائج ایک دن کے اندر دستیاب ہوں گے، جس کے بعد ڈاکٹر ورچوئل مریض پر علاج آزمانے کے بعد بہترین طریقہ علاج منتخب کر سکیں گے۔













