سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان کے حامیوں کو امید ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں سزا معطل ہونے پر وہ جیل سے باہر آ سکتے ہیں، لیکن دوسری جانب توشہ خانہ 2 کیس کا ٹرائل اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے، جس کا فیصلہ عمران خان کی آئندہ سیاسی و قانونی زندگی پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔
21 اگست کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے 9 مئی کے واقعات سے متعلق 8 مقدمات میں عمران خان کی ضمانت منظور کی تھی۔ اس کے بعد عمران خان صرف القادر ٹرسٹ کیس میں قید ہیں۔
عمران خان کس کیس میں جیل میں ہیں؟
القادر ٹرسٹ کیس، جسے £190 ملین کیس بھی کہا جاتا ہے، میں 17 جنوری 2025 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے عمران خان کو 14 سال اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
مزید پڑھیں: توشہ خانہ ٹو کیس: عمران خان کے سابق ملٹری سیکرٹری کا اہم بیان منظرعام پر آگیا
اس مقدمے میں الزام ہے کہ برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی سے واپس بھیجی گئی 190 ملین پاؤنڈ کی رقم میں بدعنوانی اور اختیارات کا غلط استعمال کیا گیا۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے سزا معطلی کی درخواست دائر کر رکھی ہے، جس کی سماعت اب 16 اکتوبر کو ہوگی۔
توشہ خانہ 2 کیس، سب سے بڑا خطرہ
اس کے ساتھ ہی عمران خان کو توشہ خانہ 2 مقدمے میں بھی سزا سنائی جا چکی تھی، جو سعودی عرب کے دورے کے دوران تحائف کی فروخت اور کم قیمت اندراج سے متعلق ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے یہ سزا معطل کر دی تھی، لیکن اب دوبارہ اسی مقدمے کی کارروائی فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ گئی ہے۔ اگر اس میں سزا برقرار رہتی ہے تو عمران خان کی رہائی ناممکن ہو سکتی ہے۔
مقدمات کی لمبی فہرست
عمران خان کے خلاف کل 186 مقدمات درج ہیں، جن میں احتجاجات، لانگ مارچ اور 9 مئی کے بعد کے واقعات شامل ہیں۔ ان میں سے کئی مقدمات میں وہ بری یا ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں، کچھ میں سزائیں معطل ہیں جبکہ چند بڑے مقدمات، جیسے القادر ٹرسٹ اور توشہ خانہ 2، اب بھی ان کی رہائی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
مزید پڑھیں: کروڑوں کے تحائف کی قیمت دانستہ چند لاکھ لگائی گئی، توشہ خانہ ٹو کیس کے گواہان کے ہوشربا انکشافات
کیا مستقبل قریب میں رہائی ممکن ہے؟
قانونی ماہرین کے مطابق اگر سپریم کورٹ القادر ٹرسٹ کیس میں سزا معطل کر بھی دے، تب بھی عمران خان کی رہائی کا انحصار توشہ خانہ 2 کیس کے فیصلے پر ہوگا۔ اس مقدمے میں سزا برقرار رہنے کی صورت میں ان کا باہر آنا ممکن نہیں ہوگا۔ تاہم اگر دونوں مقدمات میں ریلیف ملا تو عمران خان کی جلد رہائی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔













