ڈاکٹر شمع جونیجو نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے تاریخی دورے میں ان کا کردار ریکارڈ کا حصہ ہے اور خواجہ آصف کے الزامات بے بنیاد ہیں۔
ڈاکٹر شمع جونیجو نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ وہ کئی ماہ سے وزیراعظم اور حکومت کے لیے کام کر رہی ہیں، پاک بھارت جنگ کے دوران ان کے پالیسی بریفز اور ایڈوائس محفوظ ہیں۔ وزیراعظم نے انہیں اقوام متحدہ کی تقریر لکھنے کا ٹاسک دیا تھا اور باضابطہ طور پر وفد میں شامل کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ماہ نور بلوچ 53 سال کی ہیں یا نہیں؟ شمع جونیجو اور ریحام خان کے درمیان بحث
انہوں نے بتایا کہ انہیں ایڈوائزر کے طور پر سیکیورٹی پاس جاری ہوا، وہ وزیراعظم اور ٹیم کے ساتھ سفر اور ہوٹل قیام میں شریک رہیں، بل گیٹس سمیت اہم سائیڈ لائن میٹنگز کا حصہ بنیں اور کلائیمیٹ کانفرنس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ وزیراعظم کے پیچھے بیٹھی بھی نظر آئیں۔
میں پچھلے کئی مہینوں سے پاکستان اور وزیراعظم صاحب @CMShehbaz کے لئے کام کر رہی تھی!
پاک بھارت جنگ کے دوران میرے پالیسی بریفس، ایڈوائس، اور پوائنٹس، سب کچھ ریکارڈ کا حصہ ہے اور محفوظ ہے۔
مجھے وزیراعظم صاحب نے اقوام متحدہ کی تقریر لکھنے کا ٹاسک دیا۔ اور خود وفد کا حصہ بنایا۔… pic.twitter.com/YTED1ZKx1N— Dr Shama Junejo (@ShamaJunejo) September 28, 2025
ڈاکٹر شمع جونیجو کے مطابق وہ اے آئی کانفرنس میں بھی وزیر دفاع خواجہ آصف کے قریب بیٹھی رہیں اور تقریری تیاری میں شامل ہوئیں، ان کے ساتھ غیر رسمی ملاقاتیں، تصاویر اور سفر بھی کیا۔
یہ بھی پڑھیں: مسلم دنیا اسرائیل کیخلاف متحد نہ ہوئی تو سب کی باری آئے گی، وزیر دفاع خواجہ آصف
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی حتمی تقریر ٹیم ورک کا نتیجہ تھی جس میں سب کی محنت شامل تھی۔ ان کی واپسی کی فلائٹ پہلے سے طے تھی اور مشن پروٹوکول افسران انہیں ایئرپورٹ چھوڑنے آئے۔
سلامتی کونسل میں یہ تقریر وزیر اعظم کیونکہ مصروف تھے اسلئے انکی جگہ یہ تقریر میں نے کی۔ یہ خاتون یا کس نے میرے پیچھے بیٹھنا ھے دفتر خارجہ کی صوابدید و اختیار تھا اور ھے۰ فلسطین کے مسئلہ کے ساتھ میرا 60 سال سے جذباتی لگاؤ اور کمٹمنٹ ھے۔ ابو ظہبی بینک میں ملازمت کے دوران فلسطینی… pic.twitter.com/FkyCHz4fYY
— Khawaja M. Asif (@KhawajaMAsif) September 26, 2025
ڈاکٹر شمع جونیجو نے سوال اٹھایا کہ خواجہ آصف اب ایسے بیانات کس ایجنڈے کے تحت دے رہے ہیں اور کہا کہ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ اس پر وضاحت طلب کریں کیونکہ یہ ان کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے نہ کہ میری۔














