چین میں رہتے ہوئے، شینزن سے میرا غائبانہ تعارف تو ’سٹی آف فیوچر‘ کے حوالے سے تھا ہی لیکن یہاں جانے کا موقع نہیں ملا تھا۔ پہلی مرتبہ اس شہر کا تذکرہ میں نے یونیورسٹی کے کچھ طلبا سے سنا تھا۔
مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے یہ طلبا ذکر کر رہے تھے کہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ کیا کرنا چاہتے ہیں، تب اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے اور اپنے ذہن میں آنے والے اچھوتے ’آئیڈیاز‘ کو حقیقت بنانے کے لیے کچھ طلبہ نے شینزین کو اپنے ’خوابوں کا شہر‘ کہا۔
دلچسپ بات یہ کہ ان میں سے 2 بزنس میں ڈگری کر رہے تھے 3 کمپیوٹر میں اور ایک ویسٹ مینیجمنٹ میں۔ 3 بالکل مختلف شعبے تھے، لیکن منزل ایک ہی تھی، شینزن !
اس کے بعد اکثر شینزن کے حوالے سے خبریں نظروں سے گزرتی رہیں اور وہی ایک جملہ بار بار سننےکو ملا کہ ’فیوچر سٹی اگر کوئی ہے تو وہ شینزن ہے‘۔
شینزن کی ٹیکنالوجی، ہائی ٹیک انڈسٹری، ہانگ کانگ اور گریٹر بے ایریا کو مین لینڈ چائنا سے منسلک کرنے والے ’اس گلوبل ٹیک ہب‘ نے ’فارچیون 500‘ کو اپنی جانب متوجہ کیا، چین کی سلیکون ویلی کہلانے والا شینزن، حواوے، لینووو اور ٹینسنٹ سمیت 14000 سے زائد ہائی ٹیک کمپنیز کا شہر ہے، نیو جنریشن سٹارٹ اپ اور انٹرییپرینیورز کی جنت ہے۔
اختراعی جدت اور مسابقتی فوائد کے اعتبار سے چین کے سب سے نمایاں اس شہر کا جی ڈی پی 2۔2422 بلین یوآن ہے۔ شینزن کو مہاجروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے آج جب اس کی آبادی تقریباً 13،55 ملین ہے، تو اس میں سے صرف 30 فی صد مقامی لوگ ہیں۔
باقی 70 فی صد دوسروں علاقوں یا ممالک سے آئے ہوئے وہ لوگ ہیں، جن کے لیے یہ خوابوں کی سرزمین، ترقی کی ایک نئی منزل تک لے جاتی ہے۔
یہ آج کا شینزن ہے، لیکن ماضی کا شینزن ایک چھوٹا سا ساحلی شہر تھا، جس کی آبادی 310،000 نفوس پر مشتمل تھی اور ورکرز کی تعداد 30،000 سے بھی کم تھی۔ 1980 میں جب شینزن کو چین کا پہلا سپیشل اکنامک زون قرار دیا گیا، تو اس کی ترقی کے سفر نے رفتار پکڑی۔ شیزن پورٹ سے 40 شپنگ کمپنیز 130 بین الاقوامی روٹس پر سامان کی ترسیل کر رہی ہیں۔
شینزن نے اصلاحات اور کھلے پن کی پالیسی سے استفادہ کرتے ہوئے اور اپنی جغرافیائی خصوصیات کو بروئے کار لاتے ہوئے ملکی اور غیرملکی ٹیلنٹ کے لیے اپنے دروازے کھول دیئے، جس کے بعد اس شہر نے ترقی کے اس سفر میں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
یہ شہر چین میں مارکیٹ ریفارمز اور کھلے پن کا ماڈل شہر کہلاتا ہے۔ آج، ٹیکنالوجی و انوویشن کا اطلاق محض چند ٹیک کمپنیز یا بڑی عمارات کے اندر ہی نہیں ہے، بلکہ سڑک پر صفائی کرنے والے آٹومیٹک روبوٹ سےلے کر بغیر ڈرائیور کے چلنے والی مسافرگاڑیوں تک، میڈیکل سائنس میں ریموٹ آپریشنل آلات سے لے کر فاضل مواد سے بجلی بنانے اور کپڑا بنانے تک شینزن نے ہر میدان میں ترقی کی جھنڈے گاڑے ہیں، اور یہ ترقی میں نے سنی نہیں خود اپنی آنکھوں سے دیکھی اور محسوس کی ہے۔
’شینزن، سٹی آف فیوچر‘ہے۔ یہ وہ جملہ ہے، جس کا ذکر میں نےآغاز میں کیا، یہ چین کا سب سے ’کم سن شہر‘ بھی ہے، ناصرف اس کی اپنی عمر چین کے باقی جدید شہروں میں سب سے کم ہے، بلکہ یہاں کی آبادی کی اوسط عمر بھی 5۔32 ہے۔
میں نے یہاں کی اونچی اونچی عمارات میں بڑے بڑے خوابوں کو حقیقت بنانے کے لیے کام کرتے ہوئے نوجوان دیکھے، ایک عام ننھی بطخ سے متاثر ایک نوجوان کا آئیڈیا، جس نے یہاں آکر حقیقت کا روپ دھارا اور ننھی بطخوں کو ایک بین الاقوامی برینڈ بنا دیا۔
چھئین ہائی شینزن-ہانگ کانگ انوویشن اینڈ انٹریرپنیور ہب میں فضا کو صاف رکھنے والے آلات کو ننھے انوویٹو کھلونوں کے روپ میں دیکھا اور یہیں سامان اٹھانے والے ہیومنائیڈ روبوٹس کی تیاری پر کام کرنے ولے نوجوان ذہنوں کو بھی دیکھا، روبوٹس کے افعال کو مکمل درستگی فراہم کرنے کے لیے مسلسل تجربات کرتے 20 سے 30 سال کے نوجوان جو ٹیکنالوجی کی ایک نئی دنیا کی تیاری کر رہے ہیں۔
شینزن، گوانگ منگ کلچر اینڈ آرٹ سینٹر میں نوجوانوں کو تھری ڈی ٹیکنالوجی اور آرٹ کے ساتھ کھیلتے دیکھا، شینزن سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میوزیم میں آئے ہوئے، سکولز کے بچوں کو کبھی تو ڈاکٹر فیوچر کے ساتھ جدید طبی آلات کا استعمال کرتے دیکھا تو کبھی مستقبل کے یہ سائنسدان پودوں کے خصائص کا تجربہ کر رہے تھے۔
یہ بچے ان مشینوں کو پورے اعتماد کے ساتھ آپریٹ کر رہے تھے، جنہیں ہم بڑے ہاتھ لگانے سے پہلے سوچ رہے تھے کہ یہ کیسے آپریٹ ہوتی ہیں ۔ ’زیرو –ویسٹ سٹی‘ کے اس پائلٹ شہر میں بچوں کو شینزن ویسٹ مینیجمنٹ کارپوریشن میں فاضل مواد کو قابل استعمال بنانے کی اہمیت سمجھتے اور ایسی کئی اشیا بناتے دیکھا جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
کافی کے استعمال شدہ بیجوں سے مٹی بنانے اور پھر اسی مٹی سے بنی اینٹوں کو شہر کی تعمیر میں استعمال کرنے کا آپ نے کبھی سوچا؟ نہیں نا، لیکن یہ بچے اس کے بارے میں آپ سے اور مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔
شیزن میں 5 سال کا بچہ بھی ٹیکنالوجی سے بہتری لانے کا تجربہ کر رہا ہے، اس کی اہمیت کو سمجھ رہا ہے۔ یہاں 20 سال کا نوجوان اپنی قسمت اپنے ہاتھ میں ہے کا مطلب جانتا ہے، اس کی محنت اس کی قسمت بنائے گی، وہ قسمت جو اس کا مستقبل ہے اور وہ، ہمارا مستقبل ہے، مشترکہ مستقبل۔
اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کئی سینسرز ریموٹ اور پھر سکرینز پر چمکتے ہوئے اعداد و شمار دیکھ کر میں نے سوچا کہ واقعی، شینزن مستقبل کا شہر ہے، اس لیے نہیں کہ یہاں ہائی ٹیک ٹیکنالوجی ہے، بلکہ اس لیے کہ یہاں کا آج اور یہاں کا مستقبل یہ نوجوان ہیں۔
وہ بچے ہیں جو یہ تجربات کر رہے ہیں اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے جو سمجھ بوجھ اور مشاہدہ ان کے پاس ہے، ماحول اور ترقی کو ہم آہنگ رکھنے کی اہمیت جس طرح سے انہوں نے عملی طور پر اپنی روزمرہ زندگی میں دیکھی ہے وہ غیر معمولی ہے۔
جدید شہر میں فخر کے ساتھ قدیم، نودارات کہلانے والی چیزوں کو ایک آرٹسٹک انوویشن کے ساتھ سجانے والے اس شہر میں تعلیم پاتے، تجربات کرتے یہ بچے، یہ نوجوان ہی تو مستقبل ہیں اور شینزن اپنے اس مستقبل پر بھرپور سرمایہ کاری کر رہا ہے اور انہی کی مناسبت سے یقیناً یہ مستقبل کا شہر ہے۔
ایک ایسا شہر جہاں کا ہر فرد فطرت کا محافظ بھی ہے اور قدردان بھی، جہاں کا ہر ذہن تجربات کے لیے نئے لوگوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہے، اور جہاں آنے والی نسلیں ایک شفاف، پرسکون ماحول میں جدت، اختراع اور ٹیکنالوجی کے نئے باب رقم کرنے کے لیے کسی بھی اور شہر کے نوجوانوں کی نسبت زیادہ پر اعتماد ہیں۔
یہاں آکر میں سمجھی کہ یونیورسٹی کے ان نوجوانوں کے ارادے الگ لیکن خوابوں کی منزل مشترک کیوں تھی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔