پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ڈویژن نصیرآباد کے شہر ڈیرہ مراد جمالی میں مبینہ کاروکاری کے الزام میں ایک شخص نے ساتھیوں کی مدد سے اپنی سگی بھتیجی سمیت 2 افراد کو قتل کر دیا۔
پولیس کے مطابق ڈیرہ مراد جمالی کے سٹی تھانہ کی حدود مغیری محلہ میں سچل نامی شخص نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر مبینہ کاروکاری کے الزام میں اپنی بھتیجی ساجن خاتون اور نوجوان گلزار احمد کو پستول سے فائرنگ کرکے قتل کر دیا اور جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
اطلاع ملنے پر پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر دونوں لاشیں اسپتال منتقل کر دیں جہاں ضروری کارروائی کے بعد لاشیں ورثا کے حوالے کردی گئیں تاہم 2 روز گزرجانے کے بعد بھی واقعہ کا مقدمہ درج نہ ہو سکا۔
ڈیرہ مراد جمالی میں غیرت کے نام پر قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی ایسے واقعات نصیرآباد سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں رونما ہو چکے ہیں۔
عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹ
خواتین کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں پچھلے 5 سالوں میں خواتین پر تشدد کے 542 واقعات رونما ہوئے جس میں 354 افراد قتل ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق قتل ہونے والوں میں 303 خواتین تھیں جن میں سے 149 خواتین اور 51 مردوں کو صرف غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔
خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات سے متعلق ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2004 سے 2016 تک پاکستان بھر میں غیرت کے نام پر قتل کے تقریباً 15 ہزار 222 واقعات رونما ہوئے۔ 2014 میں 837 خواتین کو قتل کیا گیا جن میں 75 نابالغ بچیاں بھی شامل تھیں۔
غیرت کے نام پر قتل کیوں ہوتے ہیں؟
نصیر آباد سے تعلق رکھنے والے صحافی نظام جتوئی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات نصیرآباد اور لاڑکانہ میں سب سے زیادہ رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کرنے والا ملزم کسی بھی خاتون پر کاروکاری یعنی (غیر شرعی تعلق) کا الزام لگا کر کسی بھی خاتون یا مرد کو قتل کر دیتا ہے۔
ان علاقوں میں جاگیردارانہ نظام سمیت کئی ایسی فرسودہ روایات آج بھی قائم ہیں جن کی وجہ سے کاروکاری کے الزام میں قتل کے واقعات میں کمی نہیں آ رہی۔
نظام جتوئی نے بتایا کہ زمین کے تنازعہ، گھریلو ناچاقی، معاشی عدم استحکام اور پیسے کی لین دین تک کے معاملات میں بھی کاروکاری کا الزام لگا کرقتل کرنے کے درجنوں واقعات سامنے آچکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ان علاقوں میں آج بھی ایسے قتل کے واقعات میں کمی نہ آنے کی سب سے بڑی وجہ قاتل کو سزا نہ ملنا ہے۔ بہت سے واقعات میں معاملہ تھانے تک نہیں جاتا جس کی وجہ سے معاملہ لین دین میں ہی حل ہو جاتا ہے۔
نظام جتوئی کے مطابق سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں خواتین کے تحفظ سے متعلق آرڈیننس پاس کیا گیا تھا کہ ایسے واقعات میں اگر اہل خانہ مقدمہ درج نہیں کروا رہے تو ریاست اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کروائے گی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہو رہا جس سے غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
غیرت کے نام پر قتل کا نفسیاتی پہلو؟
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ماہر نفسیات سعدیہ اشفاق نے کہا کہ ملک بھر میں خواتین کا جنسی، اخلاقی اور نفسیاتی استحصال کیا جاتا ہے لیکن سندھ اور بلوچستان میں خواتین آج بھی اٹھارویں صدی کی خاتون کی مانند زندگی گزارتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے نصیر آباد ڈویژن میں خواتین پر تشدد، جنسی ہراسگی، نفسیاتی استحصال اور کاروکاری کے الزامات لگائے جاتے ہیں جن میں خواتین کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔
سعدیہ اشفاق نے بتایا کہ غیرت کے نام پر قتل کرنے کے واقعات میں کمی نہ آنے کی سب سے بڑی وجہ نفسیاتی دباؤ ہے۔ نصیرآباد ڈویژن میں مردوں کی بڑی تعداد معاشی طور پر مستحکم نہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں میں خواتین کو بطورِ غلام تصور کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں اگر دو گروہوں میں قتل ہو جائے تو آج بھی قتل کرنے والا اپنے گھر کی عورت جرم کے بدلے میں دوسرے گروہ کے حوالے کردیتا ہے ایسے میں اس خاتون کو بیوی کا درجہ نہیں دیا جاتا اور پھر دل بھر جانے پر ان خواتین کو کاروکاری کے الزام میں قتل کردیا جاتا ہے۔
سعدیہ اشفاق نے مزید بتایا کہ ایسے واقعات پولیس تھانے میں بھی کم رپورٹ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے آج تک غیرت کے نام پر قتل سے متعلق بہتر قانون سازی نہیں ہوسکی تاہم حکومت کو ان علاقوں میں معاشی استحکام پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عورت کو ملکیت تصور نہ کیا جائے جبکہ جرگوں کے فیصلوں کو اسٹامپ پیپر پر منتقل کیا جائے تاکہ ان فیصلوں کو قانون کے دائرے میں لایا جاسکے۔
حکومتی موقف
گورنر بلوچستان ملک عبدالولی خان کاکڑ نے کہا کہ عورتوں پر تشدد کے حوالے کسی فرد یا چند افراد کے ظلم زیادتی کو پوری قوم یا ایک قبیلے کے ساتھ جوڑنا مناسب نہیں ہے۔ دین اسلام نے عورت کو ایک قابل احترام مقام دیا ہے۔ اسلام کی اصل تعلیمات کو عام کرکے اس مسئلے کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں کے کمزور فیصلوں کے باعث خواتین کے قتل کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ اعلیٰ عدلیہ نے اس مسئلہ پر کبھی بات نہیں کی۔ غیرت کے نام پر قتل عام کے خلاف فوری قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ان واقعات میں کمی رونما ہوسکے۔