منو بھیل ضلع جامشورو کے شہر کوٹری میں نجی جیلوں سے رہائی پانے والے افراد کی جانب سے بسائی گئی ایک بستی میں رہتے ہیں۔ اپنے پیاروں سے ان کی آخری ملاقات 1998 میں ہوئی تھی جس کے بعد انہیں کچھ معلوم نہیں کہ ان کے خاندان کے افراد کس حال میں ہیں۔
سندھ میں وڈیروں کی جانب سے نجی جیلیں بنانے اور اُن میں غریب اور محنت کش طبقے کے افراد کو بیگار لینے کی غرض سے قید رکھنے کا غیر انسانی رواج آج بھی قائم ہے۔
ان جیلوں کی تاریخ دہائیوں پر نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ہے اور انسانی حقوق نامی چڑیا کبھی ان کی منڈیر پر بھی نہیں بیٹھی۔
نجی جیلوں کا معاملہ ملک کی شہری آبادی کی نظر میں تب آیا جب رواں سال فروری میں بلوچستان کے ضلع بارکھان میں ایک کنویں سے ایک ہی خاندان کے 3 افراد کی لاشیں ملیں جو لواحقین کے مطابق 2019 سے صوبائی وزیر سردار عبد الرحمان کھیتران کی نجی جیل میں قید تھے۔
ایسی ہی ایک جیل صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ میں ہے جہاں منو بھیل کے والدین، بہن بھائی اور بیوی بچے گزشتہ 25 سالوں سے قید ہیں۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے منو بھیل نے بتایا کہ ان کے خاندان کے افراد ضلع سانگھڑ کے زمیندار آدم مری کی نجی جیل میں قید ہیں جنہیں سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود آج تک رہا ئی نہیں ملی۔
اپنے قید کے ایام کو یاد کرتے ہوئے منو بھیل نے مرجھائی ہوئی آواز میں کہا کہ نجی جیل میں ہم سے کھیتی باڑی کرائی جاتی تھی جس میں فصل بونے سے کاٹنے اور سنبھالنے تک کے سارے مراحل شامل ہوتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ بھی جو کام ہوتے تھے سارے ہم سے بلا اجرت کرائے جاتے تھے اور کھانا بھی بس اتنا دیا جاتا تھا کہ تن و روح کا رشتہ قائم رہےاور بندہ کام کرنے کے قابل رہے۔
منو بھیل کا کہنا تھا کہ کسی قیدی کے بیمار پڑنے پر علاج معالجے کی کوئی سہولت نہیں دی جاتی تھی۔ کوئی معالج جیل میں بلایا جاتا نہ بیمار کو جیل کی حدود سے باہر جانے دیا جاتا کہ وہ کوئی دوا دارو کرسکے۔ یہی بیمار اگر مر جاتا تو اسے کفن تک نہیں دیتے تھے۔
اسی بستی کی ایک اور باسی پریمی نے 25 سال قید کے بعد رہائی پائی مگر اُن کا من آج بھی جیل میں اُن کے اپنوں کے ساتھ قید ہے۔
پریمی نے بتایا کہ معید جمالی جمن ہم سے بے گار لیتے تھے۔ ہمیں کچھ بھی نہیں دیا جاتا تھا، حتیٰ کہ پیٹ بھرنے کو روٹی اور تن ڈھانپنےکو کپڑا بھی نہیں۔ ہم سارے دن بھر بھوکے پیٹ ہی کام کرتے تھے۔ آخر ایک دن ہمیں موقع ملا اور ہم اس کی نجی جیل سے بھاگ گئے۔