انصاف کی دیوی کا دل تحریک انصاف پر آیا کھڑا ہے۔ یا تحریک انصاف یہ دل لوٹ کر لے گئی ہے۔ ایسے میں پی ڈی ایم نے سیاست کے کریش کورس کا اہتمام اور انتظام کیا ہے۔ یہ کورس سپریم کورٹ کے دروازے پر منعقد کرایا جا رہا ہے۔ پڑھنے کے لیے براہِ راست موقع پر آنا ضروری نہیں ہے۔ دیوار کے پیچھے بیٹھ کر بھی یہ قیمتی علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔
یہ دو چار جملے کسی نہ کسی کے جذبات سے لازمی کھیلتے محسوس ہوئے ہوں گے۔ تو ہوں، ہوسکتا اپنا دل کررہا ہو ایسا ہی ہو۔
سیاست ایک ایسا فن ہے کہ اس میدان میں اس کو جاننے والے فنکار کے علاوہ جو بھی آئے منہ کی کھاتا ہے۔ ایک سیاسی کارکن بنتے بنتے بنتا ہے۔ حالات کے تھپیڑے کھاتے، لوگوں کی تلخ باتیں اور طعنے سہتے۔ لوگوں سے جڑا رہے تو ایک دن سیاستدان عزت کما ہی لیتا ہے۔ کسی عہدے کے زعم میں سیاست کے ساتھ زور زبردستی کرنے والا منہ کی کھاتا ہی رہتا ہے۔
بلاول بھٹو نے پارلیمنٹ میں کہا کہ تحریک انصاف سیاسی جماعت بننا چاہتی ہے تو یہ اس کے لیے آخری موقع ہے۔ جو کچھ کپتان کی گرفتاری کے بعد پاکستان میں ہوا اس کے بعد یہ جملہ نظر انداز کرنے والا نہیں ہے۔ جن کی ذمہ داری امن و امان کو دیکھنا ہے ان سے بات کریں۔
وہ بتاتے ہیں کہ مظاہرین کے ہدف طے شدہ تھے۔ وہ بہت اہم جگہوں کو نظرانداز کرتے ہوئے مخصوص جگہوں پر پہنچے۔ وہاں پہنچ کر توڑ پھوڑ کی، آگ لگائی۔ کیا کیا جلا برباد ہوا یہ سب آپ پڑھ ہی چکے ہوں گے۔ ریڈیو پاکستان پشاور، کور کمانڈر ہاؤس لاہور۔ انٹیلیجنس ایجنسی کے دفاتر تک بھی مختلف شہروں میں مظاہرین پہنچے۔
مشتعل ہونے کے بعد مظاہرین کا ردِعمل فوری آتا ہے۔ وہ کہیں پہنچنے کا انتظار نہیں کرتے جو سامنے آیا اس کو توڑتے ہیں جلاتے ہیں۔ سیاسی کارکن مظاہرہ کریں تو کہیں بھی کھڑے ہوکر نعرے لگاتے ہیں۔ وٹے مارتے ہیں لاٹھیاں کھاتے ہیں۔ اس کے بعد یا گرفتار ہوتے ہیں یا گھروں کو آجاتے ہیں۔ اس وقت توڑ پھوڑ کرنے والوں کی شناخت کا عمل جاری ہے اور گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔
کالعدم تنظیم کے ایک اہم کمانڈر کا بیان سامنے پڑا ہے۔ اس میں وہ کہتا ہے کہ پاکستانی قوم اپنے اداروں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ ایسے وقت میں ہمیں اس کا ساتھ دینا چاہیے۔ آخر میں وہ اپنے ساتھیوں کو شاباش دیتا ہے۔ کہتا ہے کہ گزرے 2 دن آپ لوگوں نے جس طرح اپنے اہداف حاصل کیے وہ قابلِ تعریف ہیں۔
اب یہاں رک کر ہمیں سوچنا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کے مظاہرین کے ساتھ یہ لوگ شامل ہوگئے تھے؟ دوسری بات جو سوچنے کی ہے وہ مذاکرات کی آڑ میں عسکریت پسندوں کی رہائی، پھر پاکستان واپسی، پھر دہشتگردی کی نئی لہر کا آنا۔ یہ سب پچھلے دورِ حکومت میں ہونا جب پنجاب اسمبلی کے الیکشن کا معاملہ عدالت میں چل رہا تھا۔ تب بھی کالعدم تنظیم کا ایک بیان آیا تھا کہ ہم الیکشن ریلیوں، پولنگ اسٹیشنوں اور امیدواروں کو نشانہ بنانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ یہ سب کیا تھا؟ پی ٹی آئی کو کوئی فیور ریٹرن ہورہا تھا؟ یا پی ٹی آئی کے ساتھ نظریات ملتے تھے؟
مریم نواز نے اپنی تقریر میں کہا کہ اہم تنصیبات پر حملے پلاننگ کے ساتھ کیے گئے۔ وہ اس منصوبہ بندی کا الزام کپتان پر ہی لگاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اہداف طے شدہ تھے۔ اس پس منظر کے ساتھ وہ جب سپریم کورٹ کے مخصوص بینچ اور کپتان کو ملنے والی درجنوں مقدمات میں ضمانت کا ذکر کرتی ہیں تو اس غصے کی سمجھ آتی ہے۔
بلاول بھٹو نے پارلیمنٹ میں اپنی تقریر میں وہ ٹائم لائن بتائی جس میں جب کوئی معاشی مذاکرات ہونے ہوتے تھے، کوئی ڈیولپمنٹ ہوتی تھی تو اس کے ساتھ کپتان کسی دھرنے، احتجاج یا اسمبلی توڑنے کا اعلان کرتا تھا۔ اگر ہم گہرائی سے دیکھیں تو صورتحال پیچیدہ ہے۔
پی ڈی ایم کپتان اور اس کے اتحادی ججوں اور رٹائرڈ جرنیلوں باجوہ اور فیض پر تپی ہوئی ہے جنہوں نے حکومت چلنے نہیں دی۔ 2 صوبائی اسمبلیاں بھی اسکیم کے تحت توڑیں اور مخصوص حالات اور افراد کی موجودگی میں الیکشن حاصل کرنا چاہے جو نہیں ہوسکے۔
اب پی ڈی ایم سپریم کورٹ کے دروازے پر کھڑی ہے۔ اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن وہاں کھڑے ہوکر کہتے ہیں کہ اس عمارت کی حفاظت ہم کریں گے اور اس کے لیے پولیس رینجرز کی ضرورت نہیں۔ لیکن ہم اعلیٰ عدالت کی توہین اندر سے کرنے والے ججوں کو نہیں برداشت کریں گے۔
انصاف کی دیوی کو سیاست کا چسکہ پرانا ہے۔ یہ ٹھرک پہلے آمریتوں کا ساتھ دے کر پوری ہوجایا کرتی تھی۔ یہ دن تو آنا ہی تھا جب سیاستدانوں نے سیاست کے سبق پڑھانے اور کریش کورس کرانے کے لیے عدالت کے دروازے پر پہنچنا تھا۔ آگے تیرے بھاگ پیاری۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔