چیئرمین پاکستان علما کونسل علامہ طاہراشرفی کا کہنا ہے کہ غزہ کے مستقبل کا فیصلہ فلسطینیوں نے کرنا ہے، انہیں جو قبول ہوگا وہی پاکستان کو بھی قبول ہوگا۔
وی نیوزکو انٹرویو دیتے ہوئے حافظ طاہراشرفی کا کہنا تھا کہ امریکا میں طے پانیوالے غزہ امن منصوبے کے لیے عالمی دباؤ 158 ممالک کی جانب سے ایک آزاد خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی تائید کرتے ہوئے فلسطین کو تسلیم کرنے کے بعد سامنے آیا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر خارجہ کی فلسطین کے مسئلے سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت، دو ریاستی حل پر زور
علامہ طاہراشرفی کے مطابق امریکی صدر گزشتہ دور میں بھی امیر محمد بن سلمان اور دیگرعرب رہنماؤں کے ساتھ اس بات پر متفق تھے کہ فلسطینیوں کو ایک آزاد ریاست ملنی چاہیے اور سعودی مملکت کے اپنے حالیہ دورے میں بھی انہوں نے اس پر اتفاق کیا۔
حافظ طاہراشرفی کا کہنا تھا کہ مذکورہ اتفاق کسی خاطرخواہ نتیجے پر اس لیے نہیں پہنچ سکا کیونکہ صیہونی یہودیوں کا امریکا پر ایک اثر ہے جس کی نوعیت سیاسی نہیں بلکہ معاشی ہے، جس کے نتیجے میں بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آئی۔
مزید پڑھیں: افغانوں کو اپنی آدھی روٹی دی لیکن بدلے میں کلاشنکوف اور خودکش کلچر ملا، علامہ طاہر اشرفی
فلسطینیوں کے لیے امداد کی فراہمی میں حائل مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی ہٹ دھرمیوں کے باعث صورتحال خاصی پریشان کن تھی جس میں بے بسی کا عنصر نمایاں تھا۔
حافظ طاہراشرفی کے مطابق ان حالات میں مسلم سربراہ سرجوڑکربیٹھے ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کی اور ایک رستہ نکالا ہے کہ ایک مستقل اور پائیدار امن فلسطین میں آجائے، وہ رستہ ایک آزاد خودمختار فلسطین سے جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: کسی گروہ کو جہاد کا اعلان کرنے کا حق نہیں، جسے شوق ہے فوج جوائن کرے، طاہر اشرفی
’الحمدللہ! میں یہ بات واضح اندازمیں کہنا چاہتا ہوں کہ مسلم سربراہوں کی کوششوں سے اور اس بہت بڑا کردار سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم شہباز شریف اور بالخصوص پاکستان کے سپہ سالار کا ہے۔‘
تاہم انہوں نے واضح کیا کہ غزہ امن منصوبے کے ضمن میں فیصلہ فلسطینیوں نے کرنا ہے۔ ’فیصلہ مجھے اور آپ کو پاکستان میں بیٹھ کرنہیں کرنا، فیصلہ اہل فلسطین نے کرنا ہے کہ انہیں کیا قبول ہے، جو انہیں قبول ہوگا وہی پاکستان کو قبول ہوگا۔‘
یہ بھی پڑھیں: مسئلہ کشمیر اور فلسطین کو مذاکرات کی میز پر حل کرنا ہوگا، علامہ طاہر اشرفی
حافظ طاہراشرفی کا کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ لوگوں کو حقائق سے آگاہ کیا جائے، ان کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کے پس منظر میں فلسطینیوں کو ٹریپ کیا اور فلسطینی ریاست کی منزل تک پہنچنے کے مقصد کو نقصان پہنچایا گیا، یہی وجہ ہے کہ اسے اسرائیل کا نائن الیون بھی کہا گیا۔
غزہ امن منصوبے سے متعلق پاکستانی پوزیشن کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ناقدین شور مچارہے ہیں کہ ہم نے سمجھوتہ کرلیا، جو کہ قطعی غلط ہے۔ ’آپ کا وزیر خارجہ آپ کو ببانگ دہل کہہ رہا ہے کہ ہم وہیں پر کھڑے ہیں، جہاں کل تھے، ہمارا مؤقف وہی ہے جو کل تھا۔‘