سائنسدانوں نے سیارہ زحل کے چھوٹے مگر دلچسپ چاند اینسیلیڈس پر برف کی تہہ کے نیچے چھپے سمندر میں زندگی کے لیے موزوں مزید اجزا دریافت کیے ہیں جو اس امکان کو تقویت دیتے ہیں کہ یہاں غیر ارضی زندگی یا خلائی مخلوق کے وجود کا امکان ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ناسا نے زمین جیسا سیارہ دریافت کر لیا
یہ تحقیق نیچر ایسٹرونومی جریدے میں شائع ہوئی ہے جس کے مطابق اینسیلیڈس کے زیر زمین سمندر میں پیچیدہ نامیاتی مالیکیولز کی موجودگی کا ثبوت ملا ہے۔ یہ وہ اجزا ہیں جنہیں زندگی کے بنیادی عناصر جیسے امینو ایسڈز کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے۔
چھوٹا چاند، بڑے راز
محض 500 کلومیٹر چوڑا اور انسانی آنکھ سے نظر نہ آنے والا اینسیلیڈس (Enceladus) زحل (Saturn) کے درجنوں چاندوں میں سے ایک ہے۔
مزید پڑھیے: مریخ پر زندگی کے آثار: نئے اور مضبوط سراغ مل گئے
طویل عرصے تک سائنسدانوں کا خیال تھا کہ سورج سے اتنی دوری کے باعث یہ چاند زندگی کے لیے موزوں نہیں ہو سکتا لیکن سنہ 2004 سے سنہ 2017 کے دوران ناسا کے کیسینی مشن نے کئی بار اس چاند کے قریب سے گزر کر حیرت انگیز انکشافات کیے۔
کیسینی نے دریافت کیا کہ اینسیلیڈس کی برفیلی سطح کے نیچے ایک نمکین پانی کا سمندر موجود ہے اور اس کے جنوبی قطب پر موجود دراڑوں سے پانی کے فوارے خلا میں خارج ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: ’۔۔۔ ہم ہیں تیار چلو‘، ناسا نے چاند پر گاؤں اور مریخ پر قدم جمانے کا وقت بتادیا
ان میں شامل ننھے برفیلے ذرات جو ریت کے ذروں سے بھی چھوٹے تھے زحل کے ’ای رِنگ‘ میں شامل ہو رہے تھے جنہیں کیسینی نے اپنے کاسمک ڈسٹ اینالائزر سے ریکارڈ کیا۔
تحقیق کے نتائج اور مستقبل کی امیدیں
تحقیق کے شریک مصنف فرینک پوسٹ برگ کے مطابق نئی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جو نامیاتی مالیکیولز کیسینی نے زحل کے’ای رِنگ‘ میں دریافت کیے وہ خلا میں تبدیلی کا نتیجہ نہیں بلکہ اینسیلیڈس کے سمندر میں قدرتی طور پر موجود ہیں۔
ای رِنگ کیا ہے؟
زحل کے گرد موجود متعدد دائروں میں سے ’ای رِنگ (E Ring) ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ یہ نہ صرف زحل کے سب سے بیرونی حلقوں میں شمار ہوتا ہے بلکہ اپنے باریک، ہلکے اور نسبتاً دھندلے ذرات کی وجہ سے دوسرے حلقوں سے مختلف بھی ہے۔
ای رِنگ دراصل مکمل طور پر برفیلے ذرات پر مشتمل ہے جو زحل کے چاند اینسیلیڈس سے خارج ہوتے ہیں۔
اینسیلیڈس کے جنوبی قطب پر موجود برف کی دراڑوں سے جو پانی اور برف خلا میں پھوٹتی ہے، اس کے باریک ذرات زحل کے گرد گردش کرتے ہوئے اسی حلقے کا حصہ بن جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: ناسا نے سورج کی سرگرمیوں کی پیشگوئی کے لیے مصنوعی ذہانت کا سہارا لے لیا
یہی وجہ ہے کہ ای رِنگ کو اینسیلیڈس سے جڑا ہوا قدرتی تجربہ گاہ سمجھا جاتا ہے۔ جب ناسا کا خلائی مشن کیسینی اس حلقے سے گزرا تو اس نے ان برفیلے ذرات کو اپنے سائنسی آلات کے ذریعے جمع کیا جن میں زندگی کے لیے اہم نامیاتی اجزاء کی موجودگی سامنے آئی۔
چونکہ یہ ذرات براہ راست اینسیلیڈس کے اندرونی سمندر سے نکل کر خلا میں پہنچتے ہیں اس لیے ان کا تجزیہ سائنسدانوں کو اس چاند کے اندر موجود ممکنہ زندگی کی جھلک فراہم کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مالیکیولز کی تصدیق اینسیلیڈس کی ممکنہ زندگی کے امکانات کو مزید مضبوط کرتی ہے۔
وہاں زندگی نہ بھی ملی تب بھی معاملہ دلچسپ
فرانس کی ماہر کیمیا کیرولین فریسی نیٹ کے مطابق اگرچہ یہ کوئی حتمی ثبوت نہیں مگر زندگی کے معمے کا ایک اور اہم ٹکڑا ضرور ہے۔
یورپی خلائی ایجنسی پہلے ہی اینسیلیڈس پر مستقبل کی مشن کے امکانات کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ وہاں براہ راست زمین پر اتر کر نمونے لیے جا سکیں۔
مزید پڑھیں: کیا ہم اگلی دہائی میں خلائی مخلوق کا سراغ پا لیں گے؟
ماہرین کے مطابق اگر اس ماحول میں بھی زندگی نہ ملی تو یہ بھی ایک بڑی دریافت ہوگی کیونکہ یہ سوال پیدا ہوگا کہ جب تمام شرائط موجود ہیں تو زندگی کیوں نہیں؟