آزاد کشمیر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں اب تک 6 سویلین اور 3 پولیس اہلکار جاں بحق ہو چکے ہیں، جبکہ تقریباً 172 پولیس اہلکار زخمی ہیں۔ جن میں سے 12 شدید زخمی ہیں۔
آزاد کشمیر کے محکمہ اطلاعات کے مطابق پرتشدد مظاہروں کے دوران 50 سویلین بھی زخمی ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 90 فیصد مطالبات منظوری کے باوجود بھی احتجاج، کیا ایکشن کمیٹی کو صرف لاشیں چاہیے تھیں؟
حکومت نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ پرامن رہیں، اور سوشل میڈیا پر ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت پھیلائی گئی فیک نیوز پر کان نہ دھریں، صرف مستند اور مصدقہ خبروں کو ہی شیئر کیا جائے۔
واضح رہے کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی ہڑتال کو آج تیسرا روز ہے، جس کے باعث ریاست میں نظام زندگی مفلوج ہے، اور غذائی بحران کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر نے جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو مسائل کے حل کے لیے ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دے دی ہے، تاہم ایکشن کمیٹی کی جانب سے ابھی تک کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔
حکومت پاکستان نے عوامی ایکشن کمیٹی کے 90 فیصد سے بھی زیادہ مطالبات مان لیے تھے لیکن اس کے باوجود احتجاج کرنے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے لاشیں چاہیے تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: عوامی مفاد یا بھارتی ایجنڈے کو تقویت؟ ایکشن کمیٹی بے نقاب ہوگئی
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معصوم کشمیریوں کی جانوں کا خون کس کے ہاتھ پر ہے؟ ایکشن کمیٹی کے شرپسندوں نے کھلے عام اسلحہ کا استعمال کیا، بے گناہ شہری شہید کیے۔ اس قتل و غارت گری کی براہِ راست ذمہ دار عوامی ایکشن کمیٹی کی وہ قیادت ہے جو ضد پر اڑی، یہ احتجاج نہیں، فساد ہے۔