اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) اقبال حمید کو وفاقی شرعی عدالت کا چیف جسٹس تعینات کردیا گیا ہے۔
جوڈیشل کونسل نے متفقہ طور پر ان کا نام شرعی عدالت کے چیف جسٹس کے لیے تجویز کیا ہے۔
جسٹس اقبال حمید الرحمن سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس حمود الرحمن کے بیٹے ہیں جو 1971 میں پاک-بھارت کی جنگ کے بعد مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا جائزہ لینے والے کمیشن کے سربراہ اور پاکستان کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔
گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال ایک کیس کئ سماعت کے دوران ان کا نام لیتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے تھے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات کی تاریخ کا تعین کرنے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ججز کو متنازع بنانے کی کوشش کا ذکر کیا اور اپنے ساتھ ججز کا بھی حوالہ دیا۔
انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس اقبال حمید الرحمن کا ذکر کیا اور کہا کہ ان کے خلاف وکلا نے درخواست دائر کی اور انہیں استعفی دینا پڑا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے ان کو روکا تھا مگر انہوں نے کہا کہ اپنے والد کو کیا منہ دکھاؤں گا کہ مجھے شوکاز نوٹس ہوا ہے؟
جسٹس اقبال حمید کون ہیں؟
جسٹس اقبال حمید الرحمن سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس حمود الرحمن کے بیٹے ہیں جو 1971 میں پاک-بھارت جنگ کے بعد مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا جائزہ لینے والے کمیشن کے سربراہ اور پاکستان کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔
جسٹس حمید الرحمن اسلام آباد ہائیکورٹ کے پہلے چیف جسٹس تھے اور ان کا شمار لاہور ہائیکورٹ کے ان 3 ججز میں کیا جاتا ہے جنہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کے پی ایس او کے تحت حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔
جسٹس اقبال حمید الرحمن 25 ستمبر 1956 کو مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکا میں پیدا ہوئے اوع بعدازاں وہ مغربی پاکستان کے شہر لاہور منتقل ہوگئے۔ 2006 میں جسٹس اقبال حمید لاہور ہائیکورٹ میں بطور ایڈیشنل جج کے طور پر تعینات ہوئے اور ایک سال بعد انہیں لاہور ہائیکورٹ کا مستقل جج مقرر کردیا گیا تاہم سابق آمر پرویز مشرف کی جانب سے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کرنے کے بعد عبوری آئین کے تحت حلف لینے سے انکار کردیا تھا جس کی پاداش میں انہیں معزول کردیا گیا تاہم بعدازاں ججز بحالی کی صورت میں انہیں بحال کردیا گیا تھا۔
2011 میں انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے پہلے چیف جسٹس بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 2013 میں انہیں سپریم کورٹ میں ترقی دیتے ہوئے سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا اور انہوں نے 2021 تک بطور سپریم کورٹ جج فرائض سر انجام دینا تھیں لیکن تقریباً ساڑھے 3 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد 2016 میں جسٹس اقبال حمید الرحمن بطور سپریم کورٹ جج اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔
جسٹس حمید اقبال نے اپنے استعفی میں وجوہات کا ذکر تو نہیں کیا تھا تاہم اس وقت ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ غیر قانونی تقرریاں کی تھیں جس کو بنیاد بناتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ ان کی جانب سے کی گئی تعیناتیوں کا معاملہ سپریم کورٹ میں بھی اٹھایا گیا تھا اور بعدازاں عدالت نے ان تمام تقرریوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دیا تھا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور کمیٹی کے سربراہ کے انہوں نے 70 سے زائد غیر قانونی تقرریاں کی تھیں۔
سپریم کورٹ نے 2010 سے 2013 تک اسلام آباد ہائیکورٹ میں کی گئی تعیناتیوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور اسی فیصلے کی بنیاد پر ان کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ بار کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔
جسٹس اقبال حمید نے بطور لاہور ہائیکورٹ جج گوجرہ کے علاقے میں عیسائی آبادی پر ہونے والے حملے کی عدالتی تحقیقات بھی کیں جبکہ بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سلمان تاثیر قتل مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ میں بھی شامل تھے۔
انہوں نے بطور سپریم کورٹ جج توہین رسالت کی سزا موت پانے والی خاتون آسیہ بی بی کی اپیل سننے سے بھی انکار کردیا تھا۔ انہوں نے خود کو اس کیس سے یہ کہتے ہوئے علیحدہ کرلیا تھا کہ سلمان تاثیر مقدمے کی سماعت وہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں کرچکے ہیں اور دونوں مقدمات میں تعلق ہے اس لیے وہ بینچ میں شامل نہیں ہوسکتے۔
اس بینچ میں شامل ہونے سے معذرت کرنے پر بھی وہ خبروں میں گردش کرتے رہے اور چند دنوں بعد ہی سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہونے پر انہوں نے استعفی دے دیا۔ اس وقت انہوں نے استعفی میں کوئی وضاحت تو نہیں دی تھی تاہم 7 برس بعد چیف جسٹس آف پاکستان مقدمے کی سماعت کے دوران ان کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے اور کہا کہ جب ان کو استعفی دینے سے روکا تو انہوں نے کہا کہ ’میں اپنے والد (حمود الرحمن) کو کیا منہ دکھاؤں گا کہ مجھے نوٹس ہوا ہے۔’