اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے تحت حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے۔ یہ اعلان حماس کی جانب سے معاہدے کو مشروط طور پر قبول کرنے کے چند گھنٹوں بعد سامنے آیا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر سے ہفتہ کو جاری بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل ٹرمپ کے منصوبے کے پہلے مرحلے پر فوری عملدرآمد کے لیے تیار ہے تاکہ تمام یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنائی جا سکے۔ ہم صدر اور ان کی ٹیم کے ساتھ مکمل تعاون جاری رکھیں گے تاکہ جنگ کو ان اصولوں کے مطابق ختم کیا جا سکے جو اسرائیل نے طے کیے ہیں اور جو ٹرمپ کے ویژن سے مطابقت رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: حماس کا ٹرمپ کے غزہ پلان پر جزوی اتفاق، مزید مذاکرات کی ضرورت پر زور
بیان میں ٹرمپ کی اس اپیل کا ذکر نہیں کیا گیا جس میں اسرائیل سے غزہ پر حملے روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق اسرائیل کو اپنی فوجی کارروائیاں معطل کرتے ہوئے فوجیوں کو طے شدہ لائن تک واپس بلانا ہوگا، جس کے 72 گھنٹوں کے اندر حماس کو باقی تمام یرغمالیوں کو رہا کرنا ہوگا۔ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل 250 فلسطینی عمر قید قیدیوں اور 7 اکتوبر 2023 کے بعد گرفتار کیے گئے 1,700 فلسطینیوں کو رہا کرے گا۔
یہ بھی پڑھیے: اسرائیلی بمباری روک دے، حماس امن پر آمادہ ہے، صدر ٹرمپ
منصوبے کے تحت غزہ میں ایک غیرجانبدار اور حماس سے آزاد عبوری حکومت قائم کی جائے گی، جسے غیرانتہاپسند، دہشت گردی سے پاک علاقہ بنایا جائے گا تاکہ وہ اپنے ہمسایوں کے لیے خطرہ نہ بنے۔
جمعہ کی شب حماس نے ایک بیان میں کہا کہ وہ اس فارمولے کے مطابق قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے اور اصولی طور پر غزہ کا انتظام ایک آزاد حکومت کے سپرد کرنے پر آمادہ ہے جو فلسطینی قومی اتفاق رائے، اور عرب و اسلامی حمایت کی بنیاد پر قائم ہو۔