’اماں، یہ کمرہ مجھے چاہیے!‘ بڑی بیٹی نے پورے گھر کا جائزہ لینے کے بعد ماسٹر بیڈ روم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا۔
’ٹھیک ہے بیٹا۔‘ ابا نے رسان سے جواب دیا۔
باقی دو کمروں پر منجھلی اور سب سے چھوٹی نے فوراً دعویٰ کردیا،
اب باری آئی رنگ و روغن اور آرائش کی۔
’اماں، مجھے یہ پنک وال پیپر لگوانا ہے۔‘ سب سے بڑی نے کیٹ لاگ دیکھتے ہی خوشی سے کہا۔
’مجھے تو یہ سینری والا اچھا لگ رہا ہے۔‘ چھوٹی بول پڑی۔
منجھلی نے غور سے کیٹ لاگ پلٹا اور مضبوط لہجے میں کہا:
’مجھے بلیک اور گرے والا چاہیے۔‘
’ارے بیٹا، اس سے تو کمرہ بہت ڈارک ہو جائے گا،‘ اماں نے نرمی سے سمجھایا۔
’نہیں، مجھے یہی پسند ہے۔‘ منجھلی نے مختصر مگر پُراعتماد جواب دیا۔
’ہاں بیٹا، جو تمھیں اچھا لگے گا، وہی لیں گے۔‘ ابا نے شفقت سے بیٹی کا ہاتھ تھپتھپایا۔
کئی برس کرائے کے مکانوں میں بھٹکنے کے بعد اب قسمت نے موقع دیا تھا کہ اپنا ذاتی آشیانہ خرید سکیں۔ میاں بیوی کی خوشی دیدنی تھی اور بیٹیاں بھی جیسے خوشی سے اڑتی پھرتی تھیں۔ آخر اپنا
گھراپنا ہی ہوتا ہے۔
کمرے، ڈرائنگ روم، لاؤنج اور باورچی خانہ سب کی تزئین و آرائش زور و شور سے کی گئی۔ محض ایک ڈیڑھ ماہ میں گھر نئے روپ میں جگمگانے لگا، اور پھر وہ لمحہ بھی آ گیا جب پورا کنبہ اپنے چمکتے دمکتے آشیانے میں آن بسا۔ دن رات معمول کے مطابق گزرنے لگے۔
ابا ہر صبح دفتر کے لیے روانہ ہوتے اور بچیاں ماں کے ہمراہ اسکول چلی جاتیں۔ شام ڈھلے جب سب گھر میں ساتھ ہوتے تو مکان کی خاموش دیواروں میں ہنسی، باتوں اور قدموں کی چاپ گونجنے لگتی۔ یوں آہستہ آہستہ وہ مکان ایک زندہ دل گھر میں ڈھلنے لگا۔
چھوٹے سے لان میں ایک جانب سدا بہار بیل لپک لپک کے دیواروں سے لپٹنے لگی تو دوسری طرف رنگ برنگے پھول کھلنے لگے، ساتھ ہی لیموں کے ننھے پودے بھی جڑ پکڑ گئے۔ مالی نے دھنیا، پودینہ اور ہری مرچ کی کیاریاں بھی جما دیں، جو دیکھتے ہی دیکھتے خوشبو اور تازگی سے صحن کو بھرنے لگیں۔
پورا گھر خوشی اور زندگی کی ایک نرم سی روشنی میں نہانے لگا۔
دوست احباب کو یہ گھر کسی مہمان خانے سے زیادہ اپنائیت کا ٹھکانہ محسوس ہوتا تھا۔
گھر میں طرح طرح کی محفلیں ہوتی اور بچیاں بھی ان میں شریک ہوتیں۔
’تمھارا گھر تو بڑا ہوملی لگتا ہے۔‘ عرصے بعد ملنے والے ایک پرانے دوست نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اس وقت یوں لگتا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو اور زندگی کا پہیہ اب اسی ڈگر پر چلتا رہے گا، مگر ایک دن بڑی بیٹی نے حسبِ عادت اپنا فیصلہ سنا دیا:
’اماں، اے لیول کے بعد مجھے باہر جانا ہے۔‘
ماں نے نرمی سے سمجھایا:
’بیٹا، یہیں کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لے لو۔ ماسٹرز کے لیے چلی جانا جہاں تم چاہو۔‘
بیٹی نے گہرا سانس لیا اور بولی:
’نہیں اماں، یہاں کی یونیورسٹیوں کا معیار اچھا نہیں، مجھے وہیں پڑھنا ہے۔‘
ابا ہمیشہ کی طرح مسکرا کر بولے:
’ہاں بیٹا، جیسا تم چاہو۔‘
اور پھر وہ دن آیا جب بڑی نے اپنا بیگ کپڑوں، جوتوں اور کتابوں سے بھرنا شروع کیا۔ گھر کے ہر کونے میں جدائی کی ہلکی سی کسک پھیل گئی۔ آخر کار وہ سب کو الوداع کہہ کر پڑھائی کی خاطر پردیس کی راہ پر نکل کھڑی ہوئی۔
اب گھر میں صرف دو بچیاں رہ گئی تھیں۔ دن رات ان کی کلکاریاں اور ہنسی سے گھر اب بھی زندگی سے لبریز تھا۔ کبھی ان کے دوستوں کے گروپ یلغار کر دیتے تو چاروں جانب جشن کا سا سماں بندھ جاتا۔ مگر بڑی کی کمی دل کے کسی کونے میں پھر بھی چبھتی رہتی تھی۔
اسی دوران ایک دن منجھلی نے بات چھیڑی:
’ابا، میں بھی اسی ملک سے ڈگری کرنا چاہتی ہوں جہاں بڑی گئی ہے۔‘
ابا نے لمحہ بھر کو خاموشی اوڑھی، پھر مسکراتے ہوئے کہا:
’ہاں بیٹا، دونوں بہنیں ساتھ رہو گی تو ایک دوسرے کا سہارا بنو گی۔‘
یوں ایک بار پھر گھر پر جدائی کی گھڑی آن پہنچی۔ وہ دن پھر سے سر پر آپہنچا جب منجھلی نے اپنا سامان سمیٹا، سب کو گلے لگایا اور اڑان بھر کے پردیس سدھار گئی۔ گھر کی فضاؤں میں اس کے جانے کی خاموشی دیر تک گونجتی رہی۔
اب گھر میں صرف چھوٹی رہ گئی تھی، بہنوں کی کمی اسے کاٹ کھاتی، اور ماں باپ کو دو بڑی بیٹیوں سے دوری بار بار اداس کر دیتی۔ مگر چھوٹی باپ کی طبیعت پر گئی تھی، اچھی کتابوں، اچھی فلموں اور موسیقی کی دیوانی۔ یوں وہ باپ کے ساتھ مل کر انہی مشاغل میں تنہائی کم کرنے لگی۔
چار برس پر لگا کر اڑ گئے، اور اب باری چھوٹی کی تھی۔ ظاہر ہے جب دونوں بڑی بہنیں باہر پڑھنے گئیں، تو اس کا بھی حق بنتا تھا۔
’ابا، اماں۔۔۔ میں کینیڈا جانا چاہتی ہوں، وہاں شہریت بھی مل جاتی ہے، پھر آپ دونوں کو اپنے پاس بلا لوں گی،‘ چھوٹی نے سادگی اور معصومیت سے کہا۔
ماں باپ نے پھر دل پر ایک اور پتھر رکھا اور ہمیشہ کی طرح نرمی سے بولے:
’ہاں بیٹا، جاؤ۔۔۔ دنیا دیکھو، خوب پڑھو، آگے بڑھو۔‘
داخلے اور سفر کے سارے مراحل طے ہوئے، اور پھر وہی لمحہ آگیا، تیسری بھی سات سمندر پار اعلیٰ تعلیم کے لیے رختِ سفر باندھ بیٹھی۔
ایئرپورٹ بھی عجب جگہ ہے خوشی غمی کا ملاپ، ملنے بچھڑنے کی کسک۔۔۔ کوئی آتا ہے تو کوئی جاتا ہے، مگر آنسو دونوں مرحلوں پر بہتے ہیں۔
گھر اب سناٹے میں ڈوبا رہنے لگا، صبح ہوتی تو ابا حسبِ معمول دفتر کو نکلتے، اماں گھر کے معمولات میں مصروف رہتیں، مگر وہ چہل پہل، وہ کھلکھلاہٹ جو کبھی دیواروں میں گونجتی تھی، کہیں گم ہو چکی تھی۔
شام ڈھلتے ہی در و دیوار ان کی آنکھوں سے جیسے سوال کرتے وہ قہقہے کہاں گئے؟ وہ قدموں کی دوڑ دھوپ اور وہ ضدیں کہاں کھو گئیں؟ ٹی وی کے سامنے اب تینوں بیٹیوں کی جھگڑالو بحثوں کی جگہ خاموشی بیٹھ گئی تھی۔ باورچی خانے میں پلیٹوں اور چمچوں کی کھنک اب صرف اماں کے ہاتھوں کی رہ گئی تھی۔ بچیوں کی اپنے پسندیدہ کھانوں کی فرمائشیں تو کب کی چپ سادھ چکی تھیں۔
ابا کبھی کتاب ہاتھ میں لیتے، کبھی موسیقی چلاتے، کبھی کوئی فلم لگا کر دیکھنے لگتے اور اماں یونہی باورچی خانے میں بلاوجہ کوئی ہانڈی بنانا شروع کردیتی یا بچیوں کے کپڑے، جوتے، کتابوں کو دوبارہ بے وجہ سینت سینت کر رکھنے لگتی۔ دونوں جانتے تھے کہ بیٹیاں اپنی دنیا بنانے نکل گئی ہیں، مگر خالی کمروں کا سکوت بار بار دل کو کچوکے لگاتا۔
یوں لگتا تھا جیسے پورا گھر ایک وسیع ڈائری ہے، جس کے ہر کمرے میں یادوں کے اوراق بند ہیں، کھولنے پر صرف ہنسی، مذاق، ہلا گلا، پرمغز بحث و مباحث اور جدائی کی خوشبو نکلتی ہے۔
بچیوں کے جانے پر گھر اب سناٹے کا اسیر تھا، مگر چھٹی والے دنوں میں یہ سکوت ٹوٹ جاتا۔ فون کی گھنٹی بجتی یا موبائل اسکرین پر بیٹیوں کے نام جگمگاتے تو اماں اور ابا کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ جاتی۔
’اماں! آج میں نے خود کھانا بنایا، تصویریں بھیجی ہیں دیکھیں ذرا!‘ بڑی شوخی سے بتاتی۔
’ابا، آپ نے وہ نئی کتاب پڑھی؟ یاد ہے ہم نے ساتھ خریدی تھی؟‘ منجھلی محبت سے پوچھتی۔
اور چھوٹی ہنستے ہوئے کہتی:
’میرے پروفیسر میری بین الاقوامی سنیما پر معلومات سے بہت متاثر ہوئے اور کل میں نے میلے میں پیانو بھی بجایا، ویڈیو بھیجی ہے آپ دونوں کو۔‘
ویڈیو کال پر تینوں بیٹیوں کے ہنستے چہرے، کمرے میں گونجتی آوازیں، اور شوخ قہقہے کچھ لمحوں کے لیے دیواروں کو پھر سے زندہ کر دیتے۔ اماں بار بار اسکرین پر ہاتھ پھیرتی جیسے بچیوں کے رخسار چھو رہی ہوں۔ ابا مسکراتے مگر آنکھوں کی نمی چھپ نہ پاتی۔
مگر کال ختم ہوتے ہی کمرے پھر سے سنسان ہو جاتے۔ سکوت کی دبیز چادر دوبارہ بچھ جاتی۔ اور ماں باپ آہستہ آہستہ اپنے کام کی طرف لوٹ جاتے مگر دلوں کے کسی کونے میں اگلی کال کا انتظار ہر دم زندہ رہتا۔
بچے جب پڑھنے کے لیے دوسرے ملک جاتے ہیں تو وہ اکیلے نہیں جاتے، وہ اپنے ساتھ اپنی ہنسی، کھلکھلاہٹ، شوخیاں، مستیاں، شور شرابہ، ہلا گلا، کمرے میں بکھرے کپڑے، مسہری کے سرہانے پڑی کھانے کی پلیٹ، باتھ روم کے سِنک پر دھرا ادھ کھلا ٹوتھ پیسٹ اور اپنی چھوٹی چھوٹی شرارتیں بھی باندھ کر ساتھ لے جاتے ہیں۔ گھر کی دیواروں کو جو آوازیں جِلا بخشتی ہیں، وہ سب ایک دم خاموش ہو جاتی ہیں، شوخی اور قہقہوں کی گونج کہیں کھو جاتی ہے۔
ماں اپنے دل کو سمجھاتی ہے کہ یہ جدائی عارضی ہے، یہ فاصلہ ضرورت ہے، یہ تعلیم کے نام پر قربانی ہے، لیکن جب وہ کمرے میں پڑا خالی بستر دیکھتی ہے تو دل کہتا ہے، ’کتنی چھوٹی چھوٹی چیزیں تھیں جو میرے حصے میں خوشی بن کر آئی تھیں، اور آج وہ بھی سامانِ سفر بن گئیں۔‘
کیا بچیاں مستقل بیرون ملک چلی گئیں ہیں؟ ایک دوست نے پوچھا۔
مستقل؟ مستقل کیا ہوتا ہے؟ مستقل تو کچھ بھی نہیں سب عارضی ہے، ماں نے جواب دیا۔
ماں باپ بظاہر مضبوط دکھتے ہیں، وہ بچوں کے سامنے کمزور نہیں پڑتے مگر رات کی تنہائی میں آنسو خود بخود تکیے میں جذب ہوتے رہتے ہیں اور دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اللہ بچوں کے قدم ہمیشہ محفوظ رکھے، ان کے خوابوں کو راستہ ملے، اور وہ اپنی ہنسی کبھی نہ کھوئیں۔
اولاد کا پردیس جانا دراصل والدین کی روح کا بٹ جانا ہے۔ ایک ٹکڑا وہاں رہ جاتا ہے، اور ایک ٹکڑا یہاں سانس لیتا ہے۔ مگر والدین کا دل بھی عجب ہے کہ جدائی میں بھی سکون ڈھونڈ لیتا ہے، کیونکہ اُسے یقین ہوتا ہے کہ اس جدائی کے پیچھے بچوں کی کامیابی، ان کا مستقبل اور ان کی خوشی پوشیدہ ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔