ممتاز ادیب محمد سلیم الرحمان سے آپ قدیم یونان سے لے کر لاہور کی تاریخ تک بہت کچھ جان سکتے ہیں، ان کے ساتھ دیکھی اور ان دیکھی دنیاؤں کی سیر کر سکتے ہیں۔
قدیم یونان کی تاریخ کی غواصی کے لیے ان کی کتاب مشاہیر ادب یونانی (قدیم دور) کا سمندر ہمارے پاس موجود ہے۔ لاہور کی وہ زندہ تاریخ ہیں اور اس شہر کی ادبی و تمدنی تاریخ ان کے تذکرے کے بغیر پوری نہیں ہوتی، اس واسطے شمس الرحمان فاروقی نے انہیں ’لاہور کا قطب‘ قرار دیا تھا۔
اس شہر کی تاریخ کا طالب علم ہونے کے ناتے میں انہیں کریدتا رہتا ہوں، اس جستجو کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ ان سے کسی اہم واقعے کے بارے میں سن کر مزید جاننے کی چیٹک لگ جاتی ہے، کڑی سے کڑی ملتی ہے تو بات کہیں سے کہیں جا نکلتی ہے۔
یہ ساری تمہید ایک آندھی کے بیان کے لیے اٹھائی ہے جس نے 62 برس پہلے لاہور کی فضا میں اداسی کے رنگ بکھیر دیے تھے، اس کا تذکرہ میں نے سب سے پہلے محمد سلیم الرحمان کی زبانی سنا تھا: ’یہ جولائی 1963 کی بات ہے، دوپہر کے وقت اچانک آندھی آئی، گرمیوں کے دن بالعموم بہت روشن ہوتے ہیں لیکن آندھی کی شدت سے ہر طرف رات کا سا اندھیرا چھا گیا۔ میرے کمرے میں ریڈیو تھا جس کے ایریل کا تار دیوار سے لگا ہوا چھت تک پھیلا تھا۔ تار سے دس بارہ سیکنڈ تک نیلی چنگاریاں نکلتی رہیں۔ یہ غالباً فضا میں رچی ہوئی ساکت بجلی کی وجہ سے ہوگا، آندھی کا دورانیہ شاید پندرہ منٹ رہا۔ یہ دورانیہ بھی قیامت ڈھا گیا۔ بہت سے درخت اکھڑ گئے، بہت سے پرندے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ داتا دربار کی مسجد کے دو مینار گرنے سے کئی آدمی جاں بحق ہوئے اور کئی زخمی ہوگئے۔ پہلے گرمیوں میں آندھیاں آیا ہی کرتی تھیں لیکن ایسی آندھی نہیں دیکھی تھی جس سے عین دوپہر اندھیری رات معلوم ہونے لگے۔‘
سلیم صاحب سے آندھی کا یہ احوال جان لینے کے بعد معروف شاعر سید ضمیر جعفری کی ڈائری ملاحظہ کی تو اس میں 13 جولائی 1963 کے اندراج میں اس آندھی کو ریکارڈ کیا گیا تھا۔
مولانا غلام رسول مہر کے محمد عالم مختار حق کے نام خط میں بھی آپ کا سامنا اس آندھی و طوفان سے ہوتا ہے: ’بڑا سخت طوفان تھا، خدا کا شکر ہے کہ کچھ نقصان نہ ہوا، باہر کے باغ میں ایک چھوٹا پودا شہتوت کا تھا، جسے بیمار قرار دے کر ہم خود کٹوا دینے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ وہ ٹوٹا، ایک جامن اندرونی صحن میں تھی، اس کا سر اڑ گیا اور وہ لنڈ منڈ سی رہ گئی، اسے بھی کٹوا دینا چاہتے تھے، کیوں کہ نہ شکل اچھی تھی، نہ مقام درست تھا، پھل لگتا تھا تو صرف ایک گھچا اور چنداں سایہ بھی نہ تھا۔‘
آندھی کے بارے میں سلیم صاحب کی شہادت اور کتابوں سے اس کے بارے میں جانکاری کے بعد میں نے پنجاب یونیورسٹی مین لائبریری کا رخ کیا اور ’نوائے وقت‘ کی پرانی فائل سے آندھی کے بارے میں خبروں کا جائزہ لیا، یہ افسوس ناک خبر 13 جولائی 1963 کے دن اخبار کی لیڈ تھی، اس کی سرخیوں سے گزرے ہوئے طوفان کی المناکی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:
لاہور میں خوفناک طوفان سے 20 افراد ہلاک 70 مجروح، مسجد داتا صاحب کے دونوں مینار گر گئے۔
داتا دربار کے المناک حادثے میں 9 زائرین جاں بحق اور 50 زخمی ہو گئے، 6 مجروحین کی حالت نازک ہے۔
متعدد مکانات منہدم ہو گئے، ٹیلی فون اور بجلی کا سلسلہ کٹ گیا۔
چوبرجی میں بجلی کے دو تار چھو جانے سے 2 افراد ہلاک، بیسیوں درخت جڑوں سے اکھڑ گئے۔
اگلے دن کے اخبار میں جانی نقصان بڑھ کر30 ہوگیا۔
جس میں زائرین کی تعداد 11 بیان کی گئی ہے۔ داتا صاحب کے عرس کے موقعے پر لوگوں کی بڑی تعداد کی موجودگی کی وجہ سے جانی نقصان زیادہ ہوا۔
اخبار نے تعمیر کے ماہروں کی رائے بھی نقل کی جن کی دانست میں میناروں کی حالت ایسی نہیں تھی کہ اس طوفان کے سامنے ٹھہر سکتے۔ ‘نوائے وقت’ نے اداریے میں لکھا کہ میناروں کے ساتھ بندھے شامیانے کے رسے کاٹ دیے جاتے تو شاید مینار جان لیوا ثابت نہ ہوتے۔ اخبار کے مطابق طوفان کی رفتار قریباً سوا سو میل فی گھنٹہ تھی اور اس کا دورانیہ ایک گھنٹہ تھا۔
اب تک ہم نے لاہور کو اپنی لپیٹ میں لینے والی آندھی کا تذکرہ کیا ہے جس میں پیرایہ اظہار معروضی ہے۔ اب لاہور سے نکل کر یہ دیکھتے ہیں اس آفت ناگہانی کو تخلیق کاروں نے فکشن کے پیرہن میں کیسے پیش کیا ہے۔ سب سے پہلے خالد طور کے ناول ‘کانی نکاح’ کی بات کر لیتے ہیں جس میں دیہی علاقے میں آندھی کا نہایت مؤثر بیان ہے۔ اس سے یہ ٹکرا ذرا ملاحظہ کیجیے: ’زندگی میں کبھی میں نے کسی سرخی مائل مٹیالی دیوار کو چلتے نہیں دیکھا تھا۔ زمین سے لے کر فضا میں جہاں تک نظر جاتی تھی، ایک مہیب خوفناک مٹیالی دیوار چلتی آرہی تھی۔ بہت آندھیاں دیکھی تھیں میں نے، ایسی سن کر دینے والی دہشت بھری آندھی نہیں دیکھی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے گاؤں کی کوئی دیوار آسمان تک بلند ہو گئی ہے اور اپنے پتھروں سمیت چلی آ رہی ہے۔ سرخ رنگ کی اس خوفناک دیوار میں جگہ جگہ سیاہی مائل، زرد رنگی کوئی چیز بھی چلتی آرہی تھی، میرا دل بیٹھ سا گیا، بیل پوری قوت سے بھاگ رہا تھا، ایک تیز شور، جو پہلے سیٹی کی طرح تھا، بلند ہو رہا تھا، آہستہ آہستہ شائیں شائیں کی تیز اور بلند آواز مجھے اپنے سر کے اوپر سے گزرتی محسوس ہوئی۔‘
خالد طور کے بعد ہم محمد سلیم الرحمان کے افسانوں کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں، ان کے پہلے افسانے ’ساگر اور سیڑھیاں‘ میں ہمارا آندھی سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس کے بارے میں پڑھتے ہوئے ذہن میں لامحالہ ان کا وہ نان فکشنی بیان ذہن میں در آئے گا جسے ہم اوپر دیکھ چکے ہیں۔ ‘ساگر اور سیڑھیاں’ کا راوی طوفان کے مرکز میں ہے۔ ایک جھکڑ باہر ہے تو ایک اس کے اندر رواں ہے۔ ظاہر باطن کا موازنہ افسانے میں یوں سامنے آتا ہے: ’مجھے یکا یک ایسا محسوس ہوا کہ آندھی، آندھی میں اڑنے والے پتے، تنکے، کاغذوں کے پرزے، مٹی اور ریت اور گھٹتی بڑھتی پیلی روشنی سمٹ کر میرے جسم میں سے گزر رہی تھی۔ میں روک نہ سکتا تھا، ہوا کا دریا مجھ میں سے گزرتا جا رہا تھا۔ میں نے سوچا، باہر کی آندھی کا کیا ہے، گھڑی دو گھڑی میں اتر جائے گی، پر جو آندھی میرے اندر چڑھی ہے وہ خدا جانے، اترے گی کہ نہیں۔‘
آندھی میں درخت کی بپتا بھی بیان ہوئی ہے جو سڑک پر اوندھا پڑا تھا اور ‘اس کی ہاتھوں کی طرح پھیلی ہوئی شاخیں کیچڑ میں سن گئی تھیں، چند دن میں اس کے سوکھے پتے ہوا سے اڑ کر کہیں سے کہیں جا پڑے۔‘
ساگر اور سیڑھیاں سے ہم سلیم صاحب کے افسانے ‘مواقع’ کی طرف بڑھتے ہیں جس میں آندھی کے گزر جانے کے بعد کی صورت حال کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس میں سمیع کی ازدواجی زندگی تلخ ہے اور وہ آندھی کے وقت گھر میں بیوی کی عدم موجودگی پر خوش ہے کیوں کہ اس کے باعث وہ آندھی کا زور ٹوٹنے کے بعد کھلی فضا میں اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزار کر مسرت حاصل کرتا ہے۔
بیوی سے اس کی سرد مہری ایک ٹیلی فون کال کے ذریعے کھلتی ہے جب وہ آندھی کی وجہ سے اپنی خیریت دریافت کرنے پر رکھائی سے جواب دیتا ہے اور اسے یہ تاثر منتقل کرتا ہے کہ اس کے بغیر آندھی والا دن بھی اسے راس آیا: ’اگر تم یہاں ہوتیں تو تمہاری خوامخواہ کی حیل حجت اور جعلی تشویش کی وجہ سے ساری شام گھر میں بیٹھے بیٹھے بڑی بدمزگی سے گزرتی، اکیلے رہنا اور جو جی چاہے کرنا کتنا خوب ہے۔‘
انسانی کرداروں کے پہلو بہ پہلو پرندوں کا درد افسانے میں ہے ۔ ‘ساگر اور سیڑھیاں’ میں ایک پرندے کا تذکرہ پڑھتے ہوئے مجھے یوں لگا تھا جیسے یہ بات میں نے سلیم صاحب سے حقیقتی واقعے کے طور پر سنی ہو: ’ایک پرندہ پاس ہی ہوا میں چکر کھا کر، چیخ مارتا ہوا درختوں میں غائب ہو گیا۔‘
اب افسانے ’مواقع‘ کے آغاز میں پرندوں کا حوالہ آجاتا ہے ’لان کے ڈھیر پتوں اور ٹہنیوں کی ابتری میں کوئی کالی اور چمکیلی شے ادھ چھپی نظر آئی۔ شاید کوئی زخمی یا مردہ کوا۔ بہت سناٹا تھا۔ پرندے بھی غائب تھے، کہیں چھپے بیٹھے ہوں گے۔‘
آگے چل کر چڑیوں کی کمی کو ایک کردار دیکھیے کیسے محسوس کرتا ہے:
’چڑیاں کہاں گئیں؟‘
’چڑیاں؟‘
ہاں ہاں۔ واپس جاتے ہوئے درختوں پر ان کی چائیں چائیں سنتا تھا۔ آج بالکل سناٹا ہے۔ اگر آندھی کی زد میں آکر مر گئی ہوتیں تو ادھر ادھر نظر آتیں۔ کیا دنیا چڑیوں سے خالی ہو گئی؟
افسانے کے اس ٹکڑے سے احمد مشتاق کے دو شعر ذہن میں گونجنے لگے ہیں۔ وہ بھی ایک نظر دیکھ لیجیے:
کوے کہاں چلے گئے چڑیوں کو کیا ہوا
جو بولتے تھے شام و سحر بولتے نہیں
تم کو خبر ہے بام حرم کے کبوترو
کیوں طائران شاخ و شجر بولتے نہیں
چڑیوں کے دنیا سے خالی ہو جانے اور ان کی آواز کا شور کانوں میں نہ پڑنے کی افسانے اور شعر سے مثالوں کے بعد ایک امریکی سائنس دان لورین ایزلے کا فرمودہ یاد آتا ہے جس میں چڑیوں کے تخیل کی پرواز کا حوالہ ہے۔ اسے معروف نقاد سہیل احمد خان نے علامت نگاری پر اپنے مضمون میں نقل کیا تھا: ‘میں جب صبح دیکھتا ہوں کہ چڑیاں نیویارک کی کسی اونچی چھت پر چہچہا رہی ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک دوسرے سے یہ پوچھ رہی ہیں کہ انسان کائنات سے دفع ہو گیا ہے یا نہیں؟‘
اب تک ہم نے جو لکھا ہے اس میں آندھی سے گھر کے اندر جو ہڑبڑی مچتی ہے اور خواتین اس پر کس طرح سے ری ایکٹ کرتی ہیں اس کے بارے میں بات نہیں ہوئی۔ اس کے لیے ہمیں انتظار حسین کے ناولٹ ‘دن’ کی طرف جانا پڑے گا :
’کپڑے اٹھاؤ، اپنے اپنے، زور کی اندھیاری ہے، بڑی آپا صحن سے چلا رہی تھیں۔
تائی اماں، امی، سب کے سب باہر نکل گئے اور الگنی پہ پڑے کپڑے اور چارپائیوں پہ بکھرے بستر لپک جھپک اٹھنے لگے۔
اچھے او اچھے اندر آجا۔ تائی اماں اچھے کا ہاتھ پکڑئے ہوئے اندر دالان میں آگئیں پھر پکارنے لگیں: بی بی اندر آجاؤ، کالی آندھی ہے یہ تو۔‘
یہ منظر یو پی کی بستی کا ہے لیکن ہم سب اس سے مانوس ہیں۔ خواتین کو ایسے موقعوں پر کپٹروں، بستروں کی فکر لاحق ہوتی ہے یا پھر گھر سے باہر گئے مکینوں کی فکر۔
انتظار حسین نے آندھی کے رنگ قدرے تفصیل سے بیان کیے ہیں اور ان افواہوں کا تذکرہ بھی کیا ہے جو خواتین میں زبان زد عام ہوجاتی ہیں، اس کی دو مثالوں پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں:
’سنیں ہیں کہ ایک پتھر تین من کا شیخوں کی ٹال میں پڑا تھا وہ اڑ گیا اور اڑ کر ایک دھینور کے چھپر پر جا پڑا۔ ڈوبے کا چھپر گر پڑا۔‘
بڑھیا کنجڑی امبیں لے کے کل تو آوے گی ہی، پوچھ لیجیو، اے ہاں ڈوبی کی نند کا لونڈا آندھی میں اڑ گیا، اب تک تو ملا نئیں ہے۔‘
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔