سویڈن کی معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ پیر کو یونان پہنچیں جہاں ایتھنز کے ہوائی اڈے پر فلسطین کے حامی مظاہرین نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ وہ ان سینکڑوں عالمی کارکنوں میں شامل تھیں جنہیں اسرائیل نے غزہ کے لیے امدادی قافلہ روکنے کے بعد گرفتار کر کے ملک بدر کر دیا۔
اسرائیلی حکام کے مطابق پیر کو 171 کارکنوں کو ملک بدر کیا گیا، جن میں 22 سالہ تھنبرگ بھی شامل تھیں، جس سے اب تک ملک بدر کیے گئے افراد کی کل تعداد 341 ہو گئی ہے۔ اسرائیل نے مجموعی طور پر 479 افراد کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ بحیرہ روم کے راستے غزہ کا محاصرہ توڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: گریٹا تھمبرگ سمیت ’گلوبل صمود فلوٹیلا‘ کے مزید 171 ارکان ڈی پورٹ، مشتاق احمد اس وقت کہاں ہیں؟
یونانی وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی کہ 161 کارکن پیر کے روز ایک پرواز کے ذریعے ایتھنز پہنچے، جن میں 27 یونانی اور تقریباً 20 دیگر ممالک کے شہری شامل تھے۔
ایتھنز ایئرپورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گریٹا تھنبرگ نے کہا کہ میں بالکل واضح کہنا چاہتی ہوں یہ نسل کشی ہے جو جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عالمی ادارے فلسطینیوں کو دھوکا دے رہے ہیں اور جنگی جرائم روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں

تھنبرگ نے وضاحت کی کہگلوبل صمود فلوٹیلا مہم کا مقصد انسانی امداد پہنچانا اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنا تھا، جب ہماری حکومتیں اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہیں۔
کارکنوں کے الزامات
ملک بدر کیے گئے سوئس، ہسپانوی اور سویڈش کارکنوں نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیلی حراست کے دوران ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ سوئس گروپ نے بتایا کہ قیدیوں کو نیند سے محروم رکھا گیا، کھانا اور پانی نہیں دیا گیا، بعض کو مارا پیٹا گیا اور پنجروں میں قید کیا گیا۔
اسپین پہنچنے والے کارکن رافائل بوریگو نے کہا کہ انہوں نے ہمیں مارا، زمین پر گھسیٹا، آنکھوں پر پٹیاں باندھیں، ہاتھ پاؤں باندھے اور قید خانوں میں رکھا۔
یہ بھی پڑھیے: انسانی تاریخ کا سب سے بڑا مشن، گریٹا تھنبرگ غزہ کا اسرائیلی محاصرہ توڑنے نکل کھڑی ہوئیں
سویڈش کارکنوں کے مطابق تھنبرگ کو حراست کے دوران زبردستی اسرائیلی جھنڈا پہنایا گیا اور انہیں کھانے پینے سے محروم رکھا گیا۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کے قانونی حقوق کا احترام کیا گیا۔
ایتھنز پہنچنے کے بعد تھنبرگ نے کہا کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی پر بہت لمبی بات کر سکتی ہیں، لیکن یہ اصل کہانی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ اسرائیل نے ایک بار پھر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انسانی امداد کو غزہ پہنچنے سے روکا جبکہ وہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور پوری آبادی کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔