قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو 2010 سے سپریم کورٹ کا آڈٹ نہ ہونے سے متعلق سوال و جواب کے لیے طلب کر رکھا تھا تاہم رجسٹرار کمیٹی کے روبرو پیش نہ ہوئے جس پر ارکان کمیٹی نے برہمی کا اظہار کیا۔
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ اگر آئندہ منگل کو ہونے والے اجلاس میں رجسٹرار پیش نہ ہوئے تو پارلیمنٹ سے قرارداد منظور کر کے رجسٹرار سپریم کورٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں گے۔
چیئرمین کمیٹی نے سپریم کورٹ کے آڈٹ کے معاملات میں معاونت کے لیے سینیئر وکلا عرفان قادر، یاسین آزاد، شبر رضوی کو بھی آئندہ اجلاس میں مدعو کر لیا۔
9 مئی واقعات میں ملوث سابق دفاعی، عسکری اور دیگر افسران کی پنشن بند کرنے کی ہدایت
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان نے 9 مئی کو سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد جلاؤ گھیراؤ اور فوجی تنصیبات کو حملہ کر کے نذر آتش کرنے کا نوٹس لیا اور اس واقعہ میں ملوث سابق دفاعی، عسکری اور دیگر افسران کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی سفارش کی۔
چیئرمین کمیٹی نے چاروں صوبوں، کیبنٹ ڈویژن، متعلقہ وزارتوں کو ہدایت کی کہ جو سابق افسران اس جلاؤ گھیراؤ میں ملوث ہیں ان کی پنشن اور دیگر مراعات فوری بند کر دی جائیں۔
واقعہ میں ملوث نوجوانوں کو نوکری نہ دینے کی ہدایت
نور عالم خان نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث نوجوانوں کے کیریکٹر سرٹیفکیٹ روکنے اور کسی محکمے میں نوکری نہ دینے کی ہدایت کر دی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کی موجودگی میں پاکستان کو دشمنوں کی ضرورت نہیں۔
ہم پاک فوج کے ساتھ ہیں
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ ہم پاک فوج کے ساتھ ہیں، دکھ ہوا جب فوجی تنصیبات کا جلاؤ گھیراؤ کیا گیا، ساتھ میں اس بات کا بھی دکھ ہے کہ کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ کرنے والوں کو کیوں نہیں روکا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ایسے غنڈے ایک وقت میرے گھر آئے تھے، میں اسلام آباد میں تھا لیکن میرے گاؤں کے لوگوں نے ایسے غنڈوں کو مار بھگایا۔
نور عالم خان نے کہا کہ آرمی کے کنٹونمنٹ میں مجھے بھی داخلہ نہیں ملتا لیکن ایسے لوگوں کو کیسے جانے دے دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں چیئرمین پی اے سی کا رجسٹرار سپریم کورٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا عندیہ
واضح رہے کہ اس سے قبل 2 مئی کو قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے چیئرمین پی اے سی نور عالم خان نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ آئین پاکستان میں ایک حرف شامل نہیں کر سکتی، آئین کے مطابق کوئی بھی عدالت پارلیمنٹ کے کاغذات یا کارروائی کا ریکارڈ نہیں طلب کر سکتی جبکہ پارلیمنٹ کے ریکارڈ طلب کرنے پر سپریم کورٹ ریکارڈ پیش کرنے کی پابند ہے۔
نور عالم خان نے کہا تھا کہ آئین پاکستان پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو یہ اختیار دیتا ہے کہ سپریم کورٹ سمیت کسی بھی ادارے کا آڈٹ کروا کر ریکارڈ طلب کرے، سپریم کورٹ کا ریکارڈ طلب کیا تو وضاحت دی گئی کہ سپریم کورٹ کا آڈٹ ہوتا ہے چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے غلط بیانی کی ہے۔
نور عالم خان نے کہا کہ پارلیمنٹ کے ریکارڈ میں خط موجود ہے کہ جس میں چیف جسٹس نے رجسٹرار کو آڈٹ ریکارڈ کے سلسلے میں پارلیمنٹ میں پیش نہ ہونے کی ہدایت کی ہے۔
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کہا تھا کہ مجھے آئین پاکستان یہ اختیار دیتا ہے کہ میں سپریم کورٹ کے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر (رجسٹرار) کو طلب کروں، اسی سلسلے میں رجسٹرار سپریم کورٹ کی طلبی کا حکم نامہ جاری کیا ہے اگر رجسٹرار اب پیش نہ ہوئے تو وارنٹ گرفتاری جاری کروں گا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کو پیش ہونا پڑے گا، یہاں بادشاہت کا نظام نہیں ہے۔