ہماری بھیڑ چال

بدھ 17 مئی 2023
author image

مریم نسیم

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد رقبے کے لحاظ سے ایک چھوٹا شہر تھا، فاصلے بھی کم کم تھے۔ کھانے کی جگہ ہو، ہسپتال یا بچوں کا سکول، بس چند منٹ کی مسافت پر ہر اہم جگہ اور ٹھکانہ تھا۔ لاہور منتقل ہونے کے بعد لمبے لمبے فاصلوں نے پہلے تو کچھ عرصہ چکرائے رکھا مگر پھر آہستہ آہستہ عادت ہو ہی گئی۔ کوشش یہی رہی کہ سکول بھی گھر سے قریب ہی ہو اور باقی کاموں کے ٹھکانے بھی قریب ہی ڈھونڈ لیے جائیں۔

آہستہ آہستہ میل جول بھی بڑھنا شروع ہوا، ایک خاتون سے بات ہوئی تو کہنے لگیں کہ تمام دن بچوں کو سکول سے لے کر آنے اور سکول چھوڑنے میں لگ جاتا ہے، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ان کے بچوں کا سکول گھر سے 25 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ پوچھا وہاں بچوں کا داخلہ کیوں کروایا تو بولیں کہ سب لوگ آج کل اسی سکول میں بھیج رہے ہیں بچے، وہ بہترین اور مشہور ترین سکول ہے۔ میں نے پوچھا بہترین کس لحاظ سے؟ کیا نتیجہ اچھا ہے امتحان کا یا سہولیات زیادہ ہیں۔ کہنے لگیں نتیجہ تومیں نے پوچھا نہیں کیسا ہے، سکول میں رش کے باعث لے کر آنا جانا بھی مشکل ہے مگر سب کہتے ہیں وہی بہترین سکول ہے اس لئے بس وہاں ہی جاتے ہیں بچے۔

ایک اور خاتون سے کسی پارلر میں بیٹھے بیٹھے بات چیت ہوئی تو کہنے لگیں کہ خاندان میں شادی ہے اور کل ملا کر 17 مختلف تقریبات کی تیاری کر رہی ہوں۔ میرے حیرت کا اظہار کرنے پر بولیں۔ ارے اب تو سب ہی شادی کی لمبی لمبی تقریبات کرتے ہیں اور بے تحاشہ فنکشنز رکھتے ہیں۔

میرے یونیورسٹی کے دوستوں کا ایک واٹس ایپ گروپ تھا، اس میں کسی نے عورت مارچ کو لے کر کچھ بے ڈھنگی سی بات کی تو مجھ سے خاموش نہ رہا گیا، اسے آڑے ہاتھوں لیا تو میری ایک دوست نے مجھے علیحدہ سے میسج کر کے کہا کہ جب سب خاموش تھے تو تمہیں بولنے کی کیا ضرورت تھی۔

معاشرتی مطابقت یا کنفورم کرنا شاید انسانی معاشرے میں اس زمانے سے چل رہا ہے جب لوگ شکار کرتے تھے اور گروہوں میں رہتے تھے۔ شاید اس زمانے میں کوئی ایک انسان اکیلا ہٹ کر چلتا تو اسے کوئی جانور آرام سے شکار کر لیتا۔ زیادہ حفاظت گروہ میں رہنے اور اس کے اصول ماننے میں تھی۔ پھر جب مذاہب کا تصور سامنے آیا تو اس میں بھی کنفورمٹی کو فروغ دیا گیا۔ کیا کنفورمٹی ایک اچھی چیز ہے یا بری، اس پر مختلف لوگوں کی مختلف آرا ہیں اور شاید مختلف چیزوں پر اس کا اطلاق بہت کالے اور سفید طریقے سے نہیں ہو سکتا، مثلا اگر ٹریفک کے قوانین سے سب کنفورم کریں اور قانون کا پاس رکھیں کیونکہ دوسرا بھی رکھ رہا ہے تو یہ ایک مثبت رویہ ہے۔

مگر ہمارے ہاں قانون توڑا اس لیے جاتا ہے کہ دوسرا بھی ایسا کر رہا ہے۔ اسی طرح اگر قطار بنانے جیسے مثبت رویے کو اس لئے فروغ حاصل ہو کہ سب قطار بناتے ہیں، تو یہ ایک اچھی چیز ہے مگر ہمارے ہاں قطار توڑنے کی وجہ یہی بیان کی جاتی ہے کہ چونکہ کوئی نہیں کر رہا تھا اس لئے ہم نے بھی نہیں کیا۔

سکولوں کی وردی ایک جیسی ہونے کی وجہ سے سکول کے طالبعلموں کی پہچان بھی ہوتی ہے اور اس چار دیواری کی حد تک لباس کے فرق کی وجہ سے معاشی تفریق کا عنصر بھی کم اثر انداز ہوتا ہے، تو یہاں یکسانیت کے کچھ فوائد ہیں۔

مگر حد سے بڑھتی ہوئی conformity ، اختلاف یا تنوع کو پسند نہ کرنا اور اپنی منفرد رائے اور شخصیت نہ رکھنا انفرادی اور اجتماعی دونوں ضمن میں ایک بہت خطرناک رویہ ہے۔جب کبھی کسی ہجوم نے کسی شخص کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا تو باقی سب صرف اس لئے ساتھ شامل ہو گئے یا تماشہ دیکھتے رہے کیونکہ اکثریت یا سب ایسا کر رہے تھے۔

دوسروں کی جانب سے آپ کوپسند کرنا، دوسروں سے سراہے جانا، اور اپنائے جانا انسان کی سرشت میں ہے۔ دوسروں کے ساتھ ایک مسابقت اور ایک دوڑ میں آگے ہونا بھی ہماری انا کے پنپنے میں بہت مثبت کردار ادا کرتا ہے۔

مگر دوسروں کی تقلید کرتے اور بھیڑ چال چلتے جب ہم یہ بھول جائیں کہ ہمارا کوئی عمل ہمارے یا کسی اور کے فائدے یا نقصان میں ہے یا یہ تفریق نہ کر پائیں کہ کوئی عمل ہماری خوشی کا باعث ہے یا نہیں تو یہ conformity کسی نفسیاتی عارضے کی نزدیکی صورت رکھتی ہے، جیسا کہ جرمنی میں ہولوکاسٹ میں اکثریت نے صرف اس لئے یہودیوں کو مارا کیونکہ سب مار رہے تھے۔

ہمارے معاشرے کوماضی میں دانستہ طور پر ایک تقلید پسند معاشرہ بنایا گیا کیونکہ بھیڑوں کے ایک گروہ کو قابو کرنا بہت آسان ہے مگر اب اس عمل نے ہمارے معاشرے کو ایک پسماندہ گھٹن زدہ معاشرہ بنا دیا ہے جس میں کسی نئی سوچ کی مخالفت محض اس لئے کر دی جاتی ہے کیونکہ وہ مختلف ہے۔

ہمارے لوگ یہ بات سمجھنے سے عاری ہیں کہ جس طرح رکے ہوئے پانی میں تعفن پیدا ہو جاتا ہے، رکی ہوئی سوچ بھی کچھ اسی قسم کا نتیجہ سامنے لاتی ہے۔ سب ترقی یافتہ ممالک اب تنوع کو فروغ دے رہے ہیں کیونکہ تنوع نئی سوچ سامنے لے کر آتا ہے جس سے نئی ایجادات بنتی ہیں۔ اگر ایک مثال ہماری تاریخ سے ہی دیکھنا ہو تو، جب مختلف لشکر ملے تو اردو زبان وجود میں آئی۔

انفرادی طور پر بھی conform کرنے کے لئے معاشرتی دباو اس قدر زیادہ ہے کہ جو ہٹ کر چلنا چاہتا ہے، اسے کے ساتھ ایک اچھوت کا سا رویہ رکھا جاتا ہے, اسے نیچا دکھایا جاتا ہے اور اس کا مذاق بنایا جاتا ہے۔ نتیجتا یا لوگ اپنی مالی استطاعت سے بڑھ کر کام کرتے ہیں یا اپنی ذاتی خوشی سے ہٹ کر چلتے ہیں تاکہ دوسروں سے مطابقت میں رہ سکیں اور معاشرے کے لئے قابل قبول ہوں۔

اب سوشل میڈیا کے آ جانے سے کچھ حلقوں اور کچھ خیالات کا دباو ہمیں مزید بڑھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ خواجہ سراوں کو صرف ان کے جسمانی اختلاف کی بنا پر حقارت سے دیکھنے سے لے کر مذہبی فرقہ واریت تک یہ دشمنی ہمیں مختلف درجوں پر نظر آتی ہے۔

ہمیں اب شدید ضرورت ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر تنوع کو فروغ دیں۔ اپنے بچوں میں سوال کرنے کی عادت پیدا کریں اور ان میں یہ خوبی ڈال سکیں کہ وہ چیزوں کو اپنی سوچ کے برتے پر پرکھ سکیں اور اپنے معیار کی ایک کسوٹی کے مطابق فیصلے کر سکیں۔

ہمیں “لوگ کیا کہیں گے” اور “سب کیا کر رہے ہیں” سے ہٹ کر جینا ہو گا۔ اپنے اندر کی انفرادی آواز کو سننا اور اسے پروان چڑھانا اور دوسروں کے خیالات کی رواداری اور برداشت پیدا کرنا ہو گی۔ صرف اسی طرح ہماری زندگی میں سکون پیدا ہو گا اور معاشرے کا جمود ختم ہو گا ورنہ یہ مطابقت کی دوڑ ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑگی اور ہمارے معاشرے میں اس قدر تعفن پیدا ہو جائے گا کہ ہمارا خود کا جینا بھی ناممکن ہو جائے گا۔ وقت کی ضرورت کو سمجھنے میں ہی بہتری ہے۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مریم نسیم خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ایک آئی ٹی پروفیشنل، خاکہ نگار اور ٹیرو کارڈ ریڈر ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp