پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے دیرینہ، وفادار اور مشکل وقت کے ساتھی سمجھے جانے والے علی امین گنڈاپور کو ہٹا کر نوجوان رکنِ اسمبلی سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نامزد کردیا جو آج اسمبلی سے 90 ووٹ حاصل کرکے منتخب ہوگئے۔
انتخاب کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا۔ ایوان میں شور شرابے اور ’چور چور‘ کے نعروں کے باوجود اسپیکر بابر سلیم سواتی نے اعلان کیا کہ انتخاب آئینی طریقے سے مکمل ہوا۔
اسپیکر نے کہا کہ علی امین گنڈاپور نے استعفیٰ دیا اور فلور پر تصدیق بھی کی، نیا انتخاب قانون کے مطابق ہوا ہے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دوران شدید ہنگامہ آرائی، اپوزیشن کا بائیکاٹ اور واک آؤٹ۔ اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباداللہ نے کہا کہ علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ ابھی منظور نہیں ہوا، ایک وزیراعلیٰ کے ہوتے دوسرا منتخب نہیں ہو سکتا۔
شور شرابے کے دوران اسپیکر بابر سلیم سواتی نے وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ نعروں سے وزیراعلیٰ کا انتخاب نہیں ہوگا، کارروائی روکنے پر مجبور نہ کرو۔
اسپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ علی امین نے استعفیٰ دیا اور فلور پر تصدیق بھی کی، انتخاب آئینی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کئی قوتیں سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ بنتے نہیں دیکھنا چاہتیں۔
ایوان میں ’چور چور‘ کے نعروں کے دوران اپوزیشن واک آؤٹ کر گئی، تاہم اسپیکر نے واضح کیا کہ وزیراعلیٰ کا انتخاب آج ہر حال میں ہوگا۔
’علی امین نے استعفیٰ دیا، تصدیق کر دی، انتخاب آئینی ہے‘، اسپیکر کی رولنگ، اسمبلی میں اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی اور بائیکاٹ
خیبر پختونخوا اسمبلی میں نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دوران ایوان میں شدید ہنگامہ آرائی ہوئی، اپوزیشن نے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا جبکہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ’چور چور‘ کے نعروں سے ہال گونج اٹھا۔
اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباداللہ نے موقف اپنایا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ ابھی تک منظور نہیں ہوا، گورنر نے اسے واپس کر دیا ہے، لہٰذا ایک وزیراعلیٰ کے ہوتے ہوئے دوسرا وزیراعلیٰ منتخب کرنا غیر آئینی عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کسی بھی غیر آئینی اقدام کا حصہ نہیں بنے گی۔
ان کی تقریر کے دوران ایوان میں شور شرابہ شروع ہو گیا۔ اسپیکر بابر سلیم سواتی نے پی ٹی آئی کارکنوں کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے نعروں سے وزیراعلیٰ کا انتخاب نہیں ہوگا۔ مجھے مجبور نہ کریں کہ اسمبلی کارروائی روک کر آپ لوگوں کو باہر نکال دوں۔
اسپیکر نے واضح رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ علی امین گنڈاپور نے اپنا استعفیٰ دیا، اسمبلی فلور پر اس کی تصدیق بھی کر دی ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ آئینی ہے۔ میں رولنگ دے رہا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بہت سی قوتیں نہیں چاہتیں کہ سہیل آفریدی وزیراعلیٰ بنیں، مگر ہم جمہوری عمل کو مکمل کریں گے۔
ڈاکٹر عباداللہ نے کہا کہ اگر علی امین گنڈاپور کی کارکردگی اتنی اچھی تھی تو انہیں کیوں ہٹایا گیا؟ تاہم ان کے خطاب کے دوران اپوزیشن ارکان احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔
اسمبلی ہال میں پی ٹی آئی کارکنوں کے نعرے اور شور شرابے کے باوجود اسپیکر نے انتخابی عمل جاری رکھنے کا اعلان کیا اور کہا کہ وزیراعلیٰ کا انتخاب اسمبلی میں ہی ہوگا۔ ایوان کے اندر صورتحال کشیدہ مگر انتخابی عمل کے لیے حکومت پرعزم دکھائی دی۔
’ہماری پارٹی، ہماری مرضی‘ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے استعفیٰ کی تصدیق کر دی
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے اپنے استعفے کی تصدیق کر دی اور کہا کہ ہماری پارٹی، ہماری حکومت اور ہماری مرضی۔
اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ وہ آئین و قانون کی بالادستی چاہتے ہیں اور پارٹی کے فیصلے کے مطابق عمل کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے حکم پر اسی دن استعفیٰ دیا گیا تھا اور یہ عمل جمہوریت کے ساتھ مذاق نہیں ہونا چاہیے۔ وزیرِاعلیٰ نے اپیل کی کہ اس عمل میں تاخیری حربے استعمال نہ کیے جائیں۔
علی امین گنڈاپور نے مزید کہا کہ بطور وزیراعلیٰ جو کچھ بھی کیا وہ ریکارڈ پر ہے اور حکومت کے دور میں خزانے کی حالت بہتر ہوئی، جب وہ آئے تو خزانہ خالی تھا، مگر آج 280 ارب روپے خزانے میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی جدوجہد پارٹی اور عمران خان کے لیے ہے کیونکہ اُن کے نزدیک عمران خان اس قوم کی جنگ لڑ رہے ہیں، اور اب ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر ملک کے مسائل کے حل پر توجہ دیں۔ پاکستان کے لیے ذات سے بالاتر ہونا چاہیے۔
جمہوریت کے گلے پر چھری نہیں چلنے دیں گے، وزیراعلیٰ کا انتخاب روکنا غیر جمہوری ہے، بیرسٹر ڈاکٹر سیف
اس سے پہلے صوبائی وزیر بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا کہ وزیراعلیٰ کا انتخاب ایک جمہوری عمل ہے، اس میں رکاوٹ ڈالنے کی کسی بھی کوشش کو غیر جمہوری تصور کیا جائے گا۔
میڈیا سے گفتگو میں ڈاکٹر سیف نے وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ سیاسی اشرافیہ نے وفاق میں جمہوریت کا جنازہ نکال دیا ہے، اور اب خیبر پختونخوا میں بھی جمہوریت کو دفن کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ خیبر پختونخوا میں جمہوریت کا گلا گھونٹنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اور جعلی حکومت بنانے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔
آج کا الیکشن غیر آئینی ہے، مولانا لطف الرحمان
قبل ازیں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اور وزیراعلیٰ کے امیدوار مولانا لطف الرحمان نے کہا ہے کہ آج ہونے والا قائدِ ایوان کا انتخاب غیر آئینی ہے کیونکہ موجودہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ تاحال منظور نہیں ہوا۔
مولانا لطف الرحمان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جب تک وزیراعلیٰ کے استعفیٰ کی تصدیق اور نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوتا، نیا وزیراعلیٰ منتخب کرنا آئینی اصولوں کے منافی ہے۔
سہیل آفریدی کون ہیں؟
36 سالہ محمد سہیل آفریدی خیبر پختونخوا کے اُبھرتے ہوئے نوجوان سیاستدانوں میں سے ایک ہیں، جن کا تعلق قبائلی ضلع خیبر سے ہے، وہ سال 2024 کے عام انتخابات میں آزاد حیثیت سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 70، خیبر II سے پہلی بار رکنِ خیبر پختونخوا اسمبلی منتخب ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے علی امین گنڈاپور کو وزارت اعلیٰ سے ہٹا دیا، سہیل آفریدی نئے قائد ایوان نامزد
سہیل آفریدی 12 جولائی 1989 کو قبائلی ضلع خیبر کے بااثر آفریدی قبیلے میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے سے حاصل کی، سہیل آفریدی کا خاندان کاروبار سے وابستہ ہے اور انہوں نے معاشیات میں ڈگری حاصل کی ہے۔

سیاسی سفر
سہیل آفریدی تحریک انصاف کے پرانے نظریاتی کارکنوں میں شمار ہوتے ہیں اور سابق وفاقی وزیر و پی ٹی آئی کے روپوش رہنما مراد سعید کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔
سہیل آفریدی کا تعلق ایک متوسط مگر تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے اور کم عمری سے ہی ان کا رجحان سماجی خدمت اور نوجوانوں کی تنظیموں کی جانب رہا۔
وہ اپنے علاقے میں آپریشنز اور دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں، جبکہ ڈرون حملوں کے خلاف پی ٹی آئی کے دھرنوں میں بھی پیش پیش رہے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کی آن بان شان سمجھے جانے والے علی امین گنڈاپور کی مقبولیت میں کمی کیوں آئی؟
دورانِ تعلیم وہ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے اور بعد ازاں تحریک انصاف کے طلبہ وِنگ انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں سرگرم کردار ادا کیا، سہیل آفریدی نے عملی سیاست کا آغاز تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے کیا۔
ابتدائی دنوں میں وہ انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ذریعے پارٹی میں متحرک رہے اور نوجوان قیادت میں نمایاں مقام حاصل کیا۔
سال 2024 کے عام انتخابات میں انہوں نے پی کے 70 سے تحریک انصاف کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لیا اور واضح اکثریت سے کامیاب ہوئے۔

کامیابی کے بعد وہ صوبائی حکومت میں شامل ہوئے اور انہیں مشیر برائے مواصلات و تعمیرات کا عہدہ دیا گیا۔
عہدے اور کارکردگی
سہیل آفریدی نے محکمہ مواصلات و تعمیرات میں متعدد اصلاحات متعارف کرائیں، جن میں ڈیجیٹلائزیشن شامل ہے، وہ تمام منصوبوں اور ملازمین کے نظام کو جدید برقی نگرانی کے تحت لایا تاکہ ریکارڈ شفاف اور قابلِ رسائی ہو۔
انہوں نے صوبے بھر میں سڑکوں کی نگرانی، مرمت اور منصوبہ بندی کے لیے ایک نیا جامع نظام متعارف کرایا، جبکہ عوامی شکایات کے فوری ازالے کے لیے ای-کھلی کچہری کا آغاز کیا۔
سہیل آفریدی علی امین کابینہ کے سرگرم ارکان میں شمار ہوتے تھے اور حالیہ ردوبدل میں انہیں وزیر بنا دیا گیا تھا، ان سے محکمہ سی اینڈ ڈبلیو واپس لے کر محکمہ اعلیٰ تعلیم کا قلمدان دے دیا گیا تھا۔

بشریٰ بی بی کا اعتماد
سہیل آفریدی کو بشریٰ بی بی کا حمایت یافتہ بھی سمجھا جاتا ہے، پی ٹی آئی کے باخبر رہنماؤں کے مطابق، بشریٰ بی بی کے پشاور میں وزیراعلیٰ ہاؤس میں قیام کے دوران سہیل آفریدی ان کے رازدان بن گئے تھے۔
ذرائع کے مطابق، بشریٰ بی بی ڈی چوک مارچ سے قبل ہی علی امین سے ناراض تھیں اور پارٹی معاملات میں مداخلت کرتی تھیں، بتایا جاتا ہے کہ سہیل آفریدی کا نام بھی بشریٰ بی بی کے ذریعے ہی سامنے آیا، جو پارٹی میں سخت اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف رکھنے والے رہنماؤں میں شمار کیے جاتے ہیں۔













