اسرائیلی حراست سے رہائی پانے والے سابق سینیٹر مشتاق احمد وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ وہ بحرین سے اسلام آباد پہنچے جہاں ایئرپورٹ پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی جیل میں ہم پر کُتے چھوڑے گئے، رہائی پانے والے سابق سینیٹر مشتاق نے آنکھوں دیکھا حال بتا دیا
اس موقع پر سینیٹر مشتاق نے کہا کہ میں نے اسرائیلی حکام کو کہا کہ میرے بابائے قوم قائداعظم اسرائیل کو نہیں مانتے، میرا پاکستان، میری قوم اور میری حکومت اسرائیل کو نہیں مانتی، میں اسرائیل کو نہیں مانتا۔
اس ناجائز ریاست اسرائیل کو مٹائیں گے، سینیٹر مشتاق کا پاکستان پہنچنے پر خطاب pic.twitter.com/0r99DBb2aU
— Rizwan Ghilzai (Remembering Arshad Sharif) (@rizwanghilzai) October 9, 2025
انہوں نے کہا کہ 2 سال سے غزہ میں نسل کشی ہورہی ہے، فلسطین میں 25ہزار بچے معزور ہوچکے ہیں۔
مشتاق احمد نے بتایا کہ صمود فلوٹیلا کے شرکا میں 80 فیصد غیر مسلم تھے،ہم کیسے مسلمان ہیں جو خاموش ہیں، اسرائیل اور نیتن یاہو دہشتگرد ہے، ہم پر 20 حملے ہوئے۔
سابق سینیٹر کا مزید کہنا تھا کہ مجھے 2 بار اسرائیلی جج کے سامنے پیش کیا گیا، اسرائیل کو نہیں مانتا، پاسپورٹ پر اسرائیل کی مہر نہیں لگی۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا حافظ نعیم الرحمان کو ٹیلیفون، سینیٹر مشتاق سمیت اسرائیلی حراست میں موجود پاکستانیوں کی وطن واپسی پر گفتگو
انہوں نے کہا کہ ہم اسرائیل کو مٹائیں گے، میرے مبارک پاسپورٹ پر اسرائیل کی گندی مہر بھی نہیں لگی ہے۔
ترجمان دفترِ خارجہ کے مطابق، نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے اردن کے نائب وزیراعظم سے ٹیلیفونک گفتگو میں سابق سینیٹر مشتاق احمد کی عمان واپسی میں اردن کے تعاون پر شکریہ ادا کیا۔
سینیٹر مشتاق کا پاکستان پہنچنے پر پرتپاک استقبال۔۔۔!!! pic.twitter.com/5eTp4txxw5
— Mughees Ali (@mugheesali81) October 9, 2025
واضح رہے کہ سابق سینیٹر مشتاق احمد فلسطینی عوام کے لیے امداد لے جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلاکے قافلے میں شامل تھے۔
گزشتہ ہفتے اسرائیلی فورسز نے فلسطینیوں کے لیے امدادی سامان لے جانے والی کشتیوں کے ایک فلوٹیلا کو روک کر مشتاق احمد سمیت متعدد کارکنان کو حراست میں لے لیا تھا۔
سینیٹر مشتاق احمد اسلام آباد ائیر پورٹ پہنچ گئے، دوران قید ظالموں نے داڑھی بھی منڈوائی 💔 pic.twitter.com/KxwSuH5cTQ
— Faisal Khan (@KaliwalYam) October 9, 2025
مشتاق احمد کی رہائی بین الاقوامی سفارتی کوششوں اور اردن و پاکستان کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔














