سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد سامنے آنے والے ردعمل اور مبینہ طور پر تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے فوجی تنصیبات اور رہائش گاہوں پر حملے کرنے والے ملزمان کے خلاف مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے سامنے آنے والے ایک بیان کے بعد سویلینز کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کرنے پر بعض افراد تنقید بھی کر رہے ہیں۔
آرمی ایکٹ کے تحت درج ہونے والے مقدمے کی تفتیش اور ٹرائل فوجی عدالتوں کے ذریعے کیا جاتا ہے جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اس حوالے سے تشویش کا اظہار کر چکی ہے۔
آرمی ایکٹ ہے کیا اور مقدمات کیسے چلائے جاتے ہیں؟
پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فوجی اہلکاروں کے خلاف ٹرائل عمل میں لایا جاتا ہے تاہم اس ایکٹ میں کچھ شقیں ایسی بھی موجود ہیں جن کے تحت سویلینز کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔
آرمی ایکٹ کے حوالے سے دستیاب معلومات کے مطابق آرمی ایکٹ کے تحت کام کرنے والی فوجی عدالتیں جی ایچ کیو ایجیوٹنٹ جنرل (جیگ) برانچ کے زیرنگرانی کام کرتی ہیں اور اس عدالت کی سربراہی ایک حاضر سروس فوجی افسر کرتے ہیں۔
سنہ 2015 میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں قائم کرنے کے منظوری دی گئی تھی جن کا بنیادی مقصد دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث افراد کے خلاف تیزی سے ٹرائل کرنا اور سزائیں دلوانا تھا۔
کیا ماضی میں سویلینز کے خلاف فوجی عدالتیں فیصلہ دے چکی ہیں؟
اس حوالے سے لیفٹیننٹ کرنل (ر) انعام الرحیم نے بتایا کہ “ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں جنرل باجوہ نے بطور آرمی چیف 25 ملزمان کو فوجی عدالتوں سے سزاؤں کی توثیق کی تھی”۔
ان کے مطابق یہ وہ سویلینز تھے جن پر دہشت گردی نہیں بلکہ جاسوسی، قومی راز دشمن تک پہنچانے جیسے الزامات تھے، ان ملزمان کو کب اور کہاں سے گرفتار کیا گیا؟ اس حوالے سے کوئی معلومات سامنے نہیں لائی گئی تھیں۔
کرنل انعام الرحیم کے مطابق ان افراد میں 3 ملزمان کو سزائے موت اور دیگر کو مختلف سزائیں ہوئی تھیں جن کے خلاف ہائی کورٹس میں اب بھی اپیلیں موجود ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ چند سال قبل میجر جنرل ریٹائرڈ ظفر مہدی عسکری کے بیٹے حسن عسکری کو فوجی عدالت نے 5 برس قید با مشقت کی سزا سنائی تھی۔
حسن عسکری پر الزام تھا کہ انھوں نے سنہ 2020 میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک خط تحریر کیا تھا جس میں مبینہ طور پر اُن کی مدت ملازمت میں توسیع ملنے اور فوج کی پالیسیوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے انھیں مستعفی ہونے کو کہا تھا۔
ان پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے یہ خط دیگر جرنیلوں کو بھی ارسال کیے تھے جس کا مقصد فوج میں بغاوت کرانا تھا۔
کرنل انعام الرحیم کے مطابق اگر عمران خان کا اس کے تحت ٹرائل کیا جاتا ہے تو انہیں 7 سے 10 برس تک قید کی سزا ہوسکتی ہے جبکہ انہیں اس کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کا حق ہوگا۔