خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں بہار جوبن پر ہے جس کے ساتھ ہی یہاں صدیوں سے آباد قبیلے کیلاش نے بھی جشن منانا شروع کر دیا ہے۔ کیلاش مذہبی تہوار چلم جوش موسم بہاراں کو خوش امدید کہنے کے لیے منایا جاتا ہے۔
اس مذہبی تہوار کا اغاز جنگلی پھول توڑ کر بہار کو خوش امدید کہنے سے ہوتا ہے جب کہ یہ ستارے دیکھ کر اگلے سال کے لیے پیش گوئی پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ کافرستان کہلائی جانے والی کیلاش ویلی کی تین وادیوں میں کیلاش قبیلے سے تعلق رکھنے والے تقریباً 4 ہزار افراد رہتے ہیں جو صدیوں پرانے مذہب اور نایاب ثقافت کے امین سمجھے جاتے ہیں۔
چلم جوش کیوں منایا جاتا ہے؟
چلم جوش یا چلم جوشی کیلاش کے 4 مذہبی تہواروں میں سے ایک ہے جو ہر سال مئی کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔ چلم جوش علاقے میں سخت سردیوں کے اختتام اور سبزے اور بہار کے آمد پر جشن منایا جاتا ہے۔ اس تہوار پر کیلاش قبیلے کے افراد ایک دوسرے کے گھر جاتے ہیں اور روایتی پکوان اورخشک میوہ جات تقسیم کرتے ہیں۔
پھول توڑ کر جشن کا آغاز
کیلاش برادری سے تعلق رکھنے والے زرین خان نے وی نیوز کو بتایا کہ مذہبی تہوار چلم جوش کا اعلان کیلاش قاضی کرتے ہیں۔ جس کے بعد کیلاش کی تینوں وادیوں بریر، ریمبور اور بمبوریت میں پہلے روز صبح سویرے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں اور وہاں سے پھول توڑ کر وادی میں واپس آتے ہیں جس کے ساتھ ہی تہوار یا جشن کا باقاعدہ آغاز ہو جاتا ہے۔
زرین خان کے مطابق پورا گاؤں پھول لانے والوں کا استقبال کرتا ہے جب کہ پھول لانا اس بات کا شگون ہوتا ہے کہ مویشوں کے لیے سبزے اور چارے کی کمی نہیں ہو گی۔
دودھ، روایتی کھانے اور پیدائش کا جشن
کیلاش کی سب بڑی وادی بمبوریت کے قاضی شیراحمد خان ہیں، جو تمام مذہبی تہواروں کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جوشی تہوار میں وہ خوشیاں مناتے اور خوشحالی کا پیغام دیتے ہیں۔ دسمبر میں منائے جانے والے نئے سال کے تہوار چاوموئیش کے دوران اس غم اور ماتم کو ختم کردیا جاتا ہے جو جانے والے سال میں اموات کے باعث منایا جاتا ہے۔ ’جوشی میں سال بھر پیدا ہونے والے بچوں اور بچیوں کا جشن مناتے ہیں۔‘
کیلاشی زرین نے بتایا کہ جشن کے دوسرے روز کیلاش میں پیدا ہونے والے تمام بچوں کو ان کے عقیدے کے مطابق دودھ چھڑک کر پاک کیا جاتا ہے اور اس موقع پر دود ھ ، روایتی کھانے اور خشک میوہ جات تقسیم کیے جاتے ہیں جس کا مقصد ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہونا ہے۔
مویشیوں اور مویشی خانوں کی سجاوٹ
مویشیوں اور مویشی خانوں کو سجانا بھی کیلاش تہوارجوشی کا حصہ ہے۔ قاضی شیر احمد خان سے اس حوالے سے بتایا کہ مویشی اور مویشی خانوں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے اور انہیں پھولوں اور سبز پتوں سے سجایا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کیلاش قبیلے کا مویشیوں پر بہت زیادہ انحصار ہوتا ہے اور دودھ سے بننے والے خصوصی پکوان کی بھی تیاری بھی اس تہوار کا ایک اہم حصہ ہے۔
چھپ چھپ کر محبت کرنے والوں کے لیے جیون ساتھی چننے کا کھلا موقع
قاضی شیر احمد خان کہتے ہیں کہ جوشی تہوار نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لیے جیون ساتھی چننے کا اچھا موقع ہوتا ہے اور اس تہوار میں چاہے لڑکا ہو یا لڑکی محبت کا ایک دوسرے سے کھل کر اظہار کرتے ہیں اور کیلاش ثقافت کے مطابق بھاگ جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہماری ثقافت یا مذہب میں ارینج شادی کا رواج نہیں ہے بلکہ لڑکا لڑکی خود پسند کرکے شادی کرتے ہیں اور یہ کامیاب بھی ہے۔
قاضی شیر احمد خان نے اس موقع پر اپنی جوانی اور شادی کا قصہ بھی سنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے محبت کی شادی کی ہے اور 40 سال گزرجانے کے باوجود ہم اب بھی خوش ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس تہوار میں لڑکے لڑکیاں چھپ چھپ کر ملتے ہیں اور پھر بھاگ جاتے ہیں۔ بعد میں پھر لڑکے والے لڑکی والوں سے رشتہ مانگتے ہیں۔
آباء واجداد کی بہادری کے قصے سے نئی نسل کو آگاہ کرنا
کیلاش قاضیوں اورعمر رسیدہ افراد کی جانب سے قصے کہانیاں سنانا بھی اس تہوار کا حصہ ہے۔ زرین خان کے مطابق کیلاش ایک جنگجو قوم تھی اوراس تہوارمیں قبیلے کے بڑے کیلاش آباء واجداد کے قصے سناتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد کیلاش مذہب اور افراد کے حوالے سے نئی نسل کو آگاہ کرنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کیلاش تاریخ کے مطابق وہ عظیم فاتح سکندراعظم کی نسل سے ہیں جو ان کی فتوحات کے دوران یہاں رہ گئے اور صدیوں سے اپنی تاریخی اور نایاب ثقافت اور مذہبی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، جو دنیا میں پریوں کی کہانیوں کی شکل میں صرف کتابوں میں ہی ملتی ہیں۔
خصوصی لباس
مذہبی تہوار کے لیے کیلاش برادری خصوصی تیاری کرتی ہے۔ کیلاشی نئے لباس زیب تن کرتے ہیں، خواتین ثقافتی لباس پہنتی ہیں اور روایتی موسیقی پر رقص کرکے جشن کی جگہ پہنچ جاتی ہیں اور اس طرح جشن شروع ہو جاتا ہے۔ خواتین رقص کرتی ہیں اور نئے سال کے لیے گیت گاتی ہیں۔
اجتماعی جشن
کیلاش روایتی رقص اور ڈھول بھی جوشی تہوار کا حصہ ہیں۔ آخری دنوں میں تینوں وادیوں سے کیلاش قبیلے کے افراد بمبورت میں اکٹھا ہو کر جشن مناتے ہیں۔ خواتین، مرد، نوجوان اور بچے ٹولیوں میں ایک مخصوص انداز میں ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہیں جب کہ روایتی گیت بھی گایا جاتا ہے۔
کیلینڈر فیسٹیول
جوشی یا چلم جوشٹ کیلینڈر فیسٹیول ہے جسے باقاعدہ طور پر سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا ٹورازم اتھارٹی کے ترجمان سعید بن اویس کے مطابق تہوار کے دوران حکومت مقامی افراد کے ساتھ ہر مکمن تعاون کرتی ہے، جب کہ اس دوران ضلعی انتظامیہ تمام انتظامات دیکھتی ہے۔
سیاحوں کی آمد
کیلاش تہوار جوشی کے لیے دنیا بھر سے بڑی تعداد میں سیاح کیلاش ویلی یا کافرستان کا رخ کرتے ہیں اور ویلی میں پاؤں رکھنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی ۔
کیلاش قبیلے سے تعلق رکھنے والی شاعرہ کہتی ہیں کہ کیلاش قبییلے کے افراد سے زیادہ سیاح ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جوشی جسے عام چترالی زبان میں چلم جوشٹ بھی کہا جاتا ہے ایک مذہبی تہوار ہے جو کیلاش عقیدے کے مطابق منایا جاتا ہے۔
انہوں نے سیاحوں کو خوش امدید کہتے ہوئے کہا کہ وہ کیلاش آنے سے پہلے یہاں کی ثقافت اور روایت کے حوالے سے مطالعہ کرکے آئیں۔ انہوں نے سیاحوں سے اپیل کی کہ بغیر اجازت کسی کے گھر میں داخل نہ ہوں اور تصویریں نہ بنائیں۔
خراب سڑکیں سیاحت میں بڑی رکاوٹ
کیلاش قبیلے کی 3 وادیاں بمبوریت، بریر اوررمبور پاک افغان بارڈر کے ساتھ واقع ہیں جو دشوار گزار پتھریلے راستوں کے بعد آتی ہیں۔ سیاح حزب اللہ نے بتایا کہ کیلاش میں داخل ہونے کے بعد جنت نظیرمناظراورثقافت دیکھ کر ایک سکون کا احساس ہوتا ہے لیکن تھکاوٹ ختم نہیں ہوتی۔ ’۔۔۔کیوں کہ سڑکوں کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر سڑکیں بہتر کرلی جائیں تو اس سے سیاحت کو بہت فائدہ پہنچے گا۔‘
ستاروں کی گردش اور پیش گوئی پر تہوار کا اختتام
کیلاش تہوار جوشی میں حالات کے حوالے سے پیش گوئی انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور ہر ایک اسے جاننے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔
زرین خان بتاتے ہیں کہ جوشی کی آخری شام کچھ قاضی اورعمررسیدہ افراد تارے دیکھ کر آنے والے دنوں کا حال بتاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس موقع پرآنے والے دنوں میں بارش کے امکانات اور پہاڑوں میں مویشیوں کے لیے سبزے اور چارے کی دستیابی کے حوالے سے پیشگوئیاں کی جاتی ہیں۔
’کیلاش میں یہ بات عام ہے کہ مال مویشیوں کو راحت میسر ہو تو وہ خوش حال ہوں گے، اور اسی نئی امید کے ساتھ یہ تہوار ختم ہو جاتا ہے۔‘