فلسطینی رہنما مروان برغوتی کا نام غزہ کے جنگ بندی معاہدے کے تحت قیدیوں کی تبادلے کی فہرست سے آخری لمحات میں اسرائیل کی جانب سے یکطرفہ طور پر ہٹا دیا گیا، جس سے سمجھوتے کے نفاذ کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
مبینہ طور پر ثالثوں اور امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے پہلے اس نام کی منظوری دی تھی، بعد ازاں اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے برغوتی کو رہائی کی فہرست سے نکال دیا۔
ایک ذریعہ جس کا برغوتی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ قریبی تعلق بتایا جاتا ہے، نے ’مڈل ایسٹ آئی‘ کو بتایا کہ گزشتہ شب ثالثوں بشمول امریکی ایلچی اسٹیو وِٹکوف نے قیدیوں کی ایک فہرست کی منظوری دے دی، جس میں مروان برغوتی کا نام بھی شامل تھا۔
تاہم جمعرات کو ایک اسرائیلی ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ ’اس وقت وہ (برغوتی) اس رہائی کا حصہ نہیں ہوں گے، ذریعہ کے مطابق اس اقدام کے پیچھے اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کا یکطرفہ فیصلہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا تاریخی معاہدہ طے پاگیا
مروان کے علاوہ احمد سعادت (پیپلز فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کے رہنما)، حسن سلامہ (حماس کے سینئر عہدیدار) اور عبداللہ برغوتی (حماس رہنما، مروان کے رشتہ دار نہیں) کے نام بھی فہرست سے نکالے گئے ہیں، جو جنگ بندی معاہدے کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ اب مذاکرات کار ان کے نام بحال کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق مروان برغوتی کی رہائی بعض فریقین کے لیے ایک سرخ لکیر تھی، خاص طور پر اسرائیلی قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گِویر کی نظر میں۔ اگر وہ اس مسئلے پر اپنے ایم پیز کو کابینہ سے باہر لے آتے تو یہ بنیامین نتن یاہو کی حکومت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
اسی دوران مروان کی اہلیہ قاہرہ میں ثالثوں سے اپنے شوہر کے نام کے قیدی فہرست میں شامل رہنے کے لیے لابنگ کر رہی ہیں۔
حماس کے ایک عہدیدار نے ’الجزیرہ‘ کو بتایا کہ ثالث قیدیوں کے معاملے پر اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے کام کر رہے ہیں اور وہ فلسطینی دھڑوں کے ساتھ قومی سطح پر مشاورت کریں گے تاکہ اسرائیل کے فیصلے پر اپنے ردِ عمل کو ہم آہنگ کیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیے مذاکرات میں پیش رفت، حماس اور اسرائیل کے مابین قیدیوں و یرغمالیوں کی فہرستوں کا تبادلہ
معاہدے کے مطابق، جو بدھ کی رات طے پایا، اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیے جانے کے بدلے میں 2,000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جانا تھا جن میں سے 1,700 مرد، خواتین اور بچے وہ ہیں جو غزہ سے پکڑے گئے اور بغیر چارج کے قید کیے گئے ہیں۔
مروان برغوتی 2004 سے قید ہیں اور اکتوبر 2023 سے جب سے غزہ میں بڑے پیمانے پر کارروائی شروع ہوئی، اُنہیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ وہ فتح کے سینئر رہنما شمار ہوتے ہیں اور 2000–2005 کی دوسری انتفاضہ میں ان کے کردار کی بنا پر اسرائیل نے انہیں نشانہ بنایا تھا۔
ایک عوامی سروے کے مطابق 66 سالہ برغوتی اگر انتخابات میں حصہ لے سکیں تو اُن کی جیت کے امکانات بہت زیادہ سمجھے جاتے ہیں۔
ثالث ممالک کی کوششیں اور داخلی تنازع
جن ممالک نے برغوتی کی رہائی کی خصوصاً وکالت کی ان میں مصر اور قطر شامل تھے، انہوں نے حماس کے ساتھ مل کر اُن کی رہائی کے لیے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کیے۔ قطری امیر اور مصر کی جنرل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر نے بذاتِ خود اس معاملے میں مداخلت کی۔
تاہم فلسطینی اتھارٹیز کے بعض اعلیٰ حکام چاہتے تھے کہ وہ کسی تبادلے میں شامل نہ ہوں کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ برغوتی کی رہائی صدرت محمود عباس کے مقام و مرتبہ کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے جنگ بندی معاہدے کے ابتدائی مرحلے میں حماس 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی
اگست میں اسرائیلی قومی سلامتی وزیر ایتامار بن گویر برغوتی سے جیل میں ملے تھے اور اُن کی ایک ویڈیو منظرِ عام پر آئی تھی جس میں بن گویر نے برغوتی کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسرائیل کے مخالفین کو ’ختم‘ کر دیں گے۔ اس ویڈیو میں برغوتی کو سال خوردہ اور دبلا پتلا دکھایا گیا تھا، جو برسوں میں پہلی مرتبہ لوگوں کو نظر آئے۔
مروان برغوتی کون ہیں؟
ماروان برغوتی ایک مقبول سیاسی شخصیت ہیں۔ وہ عوام میں وسیع مقبولیت رکھتے ہیں، خاص طور پر دوسری انتفاضہ (2000–2005) میں اپنے کردار کی وجہ سے وہ 2004 سے اسرائیلی قید میں ہیں۔ طویل عرصے سے سیاسی منظرنامے میں ایک نمایاں نام رکھتے ہیں۔ ان کی رہائی پر اختلافات متعدد داخلی اور بین الاقوامی سیاسی مفادات سے جڑے ہوئے ہیں۔













