سماج کی نئی مذہبی تشکیل کیوں ضروری ہے؟

بدھ 17 مئی 2023
author image

خورشید ندیم

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ چند دن پہلے کی بات ہے۔ 7 مئی کو مردان کی نواحی بستی میں، ایک زندہ انسان کو مذہبی وحشت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ مقتول علاقے میں دینی عالم کی شہرت رکھتا تھا۔ جس تقریر کو قتل کا سبب بتایا گیا، اسی تقریر میں چند لمحے پہلے وہ درود شریف اور احادیث پڑھتا سناتا دیتا ہے اورایسے آدمی پر توہینِ مذہب کا الزام لگاتے وقت 100 بار سوچنا پڑتا ہے۔

اللہ کے رسول سیدنا محمد ﷺ پر درود بھیجنے والا گستاخ کیسے ہوسکتا ہے؟ اس سوال پر مگر کسی نے غور نہیں کیا۔ اسے سنگسار کردیا گیا۔ پتھر اور لاٹھیاں برسانے والوں کا خیال تھا کہ وہ دینی حمیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ویڈیو کی شہادت ہے کہ دین کے نام پر ایک مذہبی حلیے کا آدم لوگوں کو اس کے لیے ابھارتا رہا۔

مذہب کے نام پر وحشت و بربریت کا جو مظاہرہ کیا گیا، سچ پوچھیے تو وہ نوشتہ دیوار تھا۔ اگر آنے والے دنوں میں اس واقعے کو کسی بستی کی کسی گلی، کسی کوچے میں دھرایا جاتا ہے تو مجھے اس کا دکھ تو بہت ہوگا مگر حیرت نہیں ہوگی۔ مذہب کے نام پر جو فصل ہم نے تیار کی ہے وہ ہم ہی نے کاٹنی ہے۔

مذہب سماجی بنت کا حصہ ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا سماج تلاش کیا جاسکے جہاں مذہب نے انسانی رویے اور سماجی کردار کی تشکیل میں کوئی کردار ادا نہ کیا ہو۔ انسان کے کچھ فطری مطالبات ہیں جن کو مذہب ہی پورا کرسکتا ہے اس لیے اس کی نفی محال ہے۔

اشتراکی فکر کے زیرِ اثر جب مذہب کے بغیر سماجی تشکیل کی کوشش کی گئی تو وہ ناکام ثابت ہوئی۔ جب ’آہنی پردہ‘ اٹھا تو انسان کی فطری مذہبیت سرعت کے ساتھ لوٹ آئی۔ مذہب کے بغیر سماجی تشکیل دیوانے کا خواب ہے اس لیے سوال یہ نہیں کہ مذہب کے بغیر کوئی سماجی نظام کیسے بنایا جائے، سوال یہ ہے کہ مذہب کے سوئے استعمال کا راستہ کیسے بند کیا جائے؟

مذہب جو اصلاً خیر کی ایک قوت ہے، 2 اسباب سے شریر قوتوں کا ہتھیار بنا۔ ایک یہ کہ عوام کے ساتھ اس کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اقتدار کی کشمکش میں اس کو استعمال کیا گیا۔ جیسے ہمارے ہاں ایک عورت سیاسی حریف کے طور پر سامنے آئی تو اس کی سیاسی قیادت کو مذہب کے خلاف قرار دینے کے لیے سیاسی مہم اٹھائی گئی۔ انتخابی دھاندلی کے خلاف اٹھنے والی سیاسی تحریک کو ’تحریکِ نظامِ مصطفیٰ‘ کا عنوان دے دیا گیا۔

دوسرا سبب یہ ہوا کہ اہلِ مذہب، سیاسی اقتدار کا حصہ بننے کے بعد ایک ’مفاداتی گروہ‘ (Interest Group) میں تبدیل ہوگئے۔ اس کی مثال یورپ میں اہلِ کلیسا کی تاریخ ہے۔بادشاہ اور جاگیردار کے ساتھ مل کر اہلِ کلیسا نے ایک اتحاد تشکیل دیا جسے تاریخ نے ’غیر پاکیزہ اتحاد‘ (Unholy Alliance) کا نام دیا۔ اس سہ فریقی اتحاد نے مل کر عوام کا ستحصال کیا۔ اس کے خلاف ردِعمل ہوا اور اہلِ کلیسا سے اقتدار ہی نہیں، سیاسی کردار بھی چھین لیا گیا۔

ہمارے ہاں بھی جنرل ضیاالحق مرحوم نے ایسا ہی ایک اتحاد مذہبی قوتوں کے ساتھ مل کر بنایا۔ فوجی آمر چونکہ عوامی تائید سے محروم ہوتا ہے، اس لیے وہ اس کی تلافی کے لیے کوئی سہارا ڈھونڈتا ہے۔ جنرل صاحب نے ’سیاسی عصبیت‘ کا توڑ ’مذہبی عصبیت‘ سے کیا اور اہلِ مذہب کو اقتدار میں شامل کرتے ہوئے انہیں اہلِ سیاست کے متبادل کے طور پر سیاسی نظام کا حصہ بنا دیا۔

اہلِ مذہب نے اس موقع کو استعمال کیا اور خود کو ایک مفاداتی گروہ کے طور پر منظم کرلیا۔ اب ریاست کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ ان کو نظر انداز کرسکے۔ جب ریاست نے ایسا کرنا چاہا تو انہوں نے عوام کے مذہبی جذبات کو سیاست کے لیے استعمال کرتے ہوئے ریاست کو بے بس کردیا۔

جنرل ضیاالحق کے بعد بھی ریاست نے ان عناصر کو اہلِ سیاست کے خلاف استعمال کیا۔ جب چاہا یہ عمل کس بے دردی سے ہوا کوئی اس کو سمجھنا چاہے تو فیض آباد دھرنے کے مقدمے میں جسٹس فائز عیسیٰ کا فیصلہ پڑھ لے۔

مذہبی گروہوں کو اب اپنی سماجی و سیاسی قوت کا اندازہ ہوچکا ہے اس لیے یہ جب دیکھتے ہیں کہ ریاست ان سے بے نیاز ہو رہی ہے تو یہ اپنی قوت کا مظاہرہ کرتے ہیں تاکہ ریاست ان کے ہاتھوں یرغمال بنی رہے۔

9 برس پہلے جب ریاست یکسو ہوئی کہ پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بھارت نہیں، مذہبی دہشتگردی ہے تو ان گروہوں کو ختم کرنے کے لیے ایک حکمتِ عملی تشکیل دی گئی اور نیشنل ایکشن پلان بنا جس پر نوازشریف حکومت نے قومی اتفاقِ رائے قائم کیا۔

اس کی کوکھ سے ’پیغامِ پاکستان‘ نے جنم لیا جو مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ایک بیانیہ تھا۔ اہلِ مذہب نے طوعاً و کرہاً اس کو قبول کرلیا مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اتر سکا۔ ’پیغامِ پاکستان‘ میں اس بات کی ممانعت کردی گئی کہ مذہب کے نام پر کوئی مسلح گروہ وجود میں آسکتا نہ کسی کی تکفیر کی جاسکتی ہے۔ قانون کا نفاذ صرف ریاست کا حق ہے۔

حالات نے گواہی دی کہ محض ایک دستاویز پر دستخط کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔لازم ہے کہ آپ اسے دل اور دماغ سے قبول کریں۔ ایسا نہیں ہوا۔ یوں سیاست اور دنیاوی مفادات کے لیے مذہب کے استعمال کا دروازہ بند نہیں ہوسکا۔

چند روز پہلے جہلم کے ایک مبلغ کو واجب القتل قرار دے کر اس کے لیے انعام کا اعلان کیا گیا۔ دوسری طرف اہلِ سیاست نے بھی تجربات سے کچھ نہیں سیکھا اور مذہب کا سیاسی استعمال جاری رکھا۔ عمران خان صاحب نے ایک مذہبی کلٹ تشکیل دیا اور ان کے گرد اب عقیدت کا ایسا ہالہ بنا دیا گیا کہ وہ ایک نورانی وجود میں ڈھل گئے۔ ان کے بارے میں مذہبی لغت کا استعمال عام ہوگیا ہے۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے جس کی سنگینی کا اندازہ نہیں کیا گیا۔ مرادن کا واقعہ اسی کا شاخسانہ ہے۔

علاج اس کا یہی ہے کہ مذہب کے فطری کردار کو زندہ کیا جائے اور اس کے سوئے استعمال کا دروازہ بند کیا جائے۔ یہ فطری کردار کیا ہے؟ فرد اور سماج کے اخلاقی کردار کی تطہیر۔ فرد کی ذمہ داری یہ ہے کہ خود کو پاکیزہ بنائے اور دوسروں کو اچھی بات کی تلقین کرے اور اسی کو دعوت کہتے ہیں۔ ریاست چونکہ سماج کا حصہ ہے اس لیے مذہب اس کا بھی تزکیہ کرنا چاہتا ہے۔ سیاست کا تزکیہ یہ ہے کہ وہ مشاورت کے اصول پر کھڑی ہو اور اس میں انصاف کی حکمرانی ہو۔ اربابِ اقتدار خود کو عوام اور خدا کے سامنے جواب دہ سمجھیں۔

مذہب کے مفاداتی استعمال کو روکنے کے لیے سب سے پہلے یہ لازم ہے کہ  مذہب کو سیکیورٹی پیراڈائم کا حصہ نہ بنایا جائے۔ ریاست عوام کو کوئی بیانیہ نہ دے۔ وہ صرف عوامی بیانیے کو آگے بڑھانے میں معاون بنے۔ اس کے نتیجے میں ریاستی ادارے مذہبی کے بجائے قومی ادارے بنیں گے۔ جب ہم نے پاکستان کو جغرافیائی وحدت مان لیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو قومیت کی اساس بھی مان لیا۔ اب پاکستان میں بسنے والے ایک قوم ہیں، رنگ و نسل اور مذہب و فرقے کی تقسیم سے ماورا۔ اگلا قدم اس بنیاد پر نئے قومی بیانیے کی تشکیل ہے۔ یہ ’پیغامِ پاکستان‘ سے اگلا قدم ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

دانش ور، کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ مذہب کا ریاست اور سماج سے تعلق ان کی دلچسپی کا میدان ہے۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp