اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں انٹرنیٹ کی رفتار میں کمی کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔ صارفین کے مطابق انٹرنیٹ سروسز گزشتہ چند ہفتوں سے غیر مستحکم ہیں جبکہ کچھ علاقوں میں کنیکٹیویٹی مکمل طور پر متاثر ہو جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: انٹرنیٹ سروس کو درپیش مسائل کیا 5 جی اسپیکٹرم سے حل ہو جائیں گے؟
تاہم پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کا کہنا ہے کہ انہیں ملک میں کسی بڑے پیمانے پر خرابی کی کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی اور سروسز معمول کے مطابق کام کر رہی ہیں۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے پاکستان سافٹ وئیر ہاوسز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین زوہیب خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 4 جی سروس مکمل طور پر فعال نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ عام صارفین بلکہ پالیسی ساز اداروں کے درمیان بھی انفارمیشن گیپ بھی ہے۔
زوہیب خان نے بتایا کہ زیادہ تر لوگ انٹرنیٹ کے سست ہونے کی اصل تکنیکی وجوہات سے آگاہ نہیں اور یہی لاعلمی مسئلے کو بڑھا رہی ہے۔
مزید پڑھیے: اسپیکٹرم کیا ہے اور پاکستان میں اس پر تنازع کیوں، اس کا انٹرنیٹ اسپیڈ سے کیا تعلق ہے؟
انہوں نے کہا کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ چاہے 3 جی ہو، 4 جی یا 5 جی ہو ان سب کا انحصار ریڈیو فریکوئنسی اسپیکٹرم پر ہوتا ہے جو ایک محدود قدرتی وسیلہ ہے۔
زوہیب خان نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت صرف 274 میگا ہرٹز فریکوئنسی استعمال کی اجازت ہے جبکہ بنگلہ دیش جیسے ملک میں یہ اجازت 500 میگا ہرٹز سے بھی زیادہ ہے لہٰذا اس فرق نے دونوں ملکوں کے انٹرنیٹ معیار میں واضح خلا پیدا کر دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کو ڈیجیٹل معیشت میں مقابلے کے قابل بننا ہے تو فریکوئنسی کو 600 میگا ہرٹز تک بڑھانا ناگزیر ہے کیوں کہ اس سے نہ صرف 4 جی نیٹ ورک مستحکم ہوگا بلکہ 5 جی ٹیکنالوجی کے آغاز کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔
مزید پڑھیں: زبان کا جادو: کیا آپ اصل انٹرنیٹ دیکھ بھی پاتے ہیں؟
زوہیب خان کے مطابق بدقسمتی سے اس حوالے سے فیصلہ ساز اداروں کے درمیان رابطے اور فہم کی کمی یعنی کے باعث فریکوئنسی کے معاملات برسوں سے عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ تک پہنچ چکا ہے اور اگر عدالت 200 میگا ہرٹز اضافی فریکوئنسی کی اجازت دیتی ہے تو پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار، کنیکٹیویٹی اور ڈیجیٹل انویسٹمنٹ تینوں میں نمایاں بہتری آ سکتی ہے۔
اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے آئی ٹی ایکسپرٹ اطہر عبدالجبار کا کہنا تھا کہ مسئلہ صرف اسپیکٹرم تک محدود نہیں بلکہ انفراسٹرکچر کی کمزوری بھی ایک بڑی وجہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ’اے آئی کی برکت‘، محض انٹرنیٹ ایڈریس نے کس طرح چھوٹے جزیرے کی قسمت بدلی؟
اطہر عبدالجبار نے کہا کہ پاکستان میں فائبرآپٹک نیٹ ورک اب بھی صرف بڑے شہروں تک محدود ہے جبکہ دیہی علاقوں میں ڈیٹا ٹرانسمیشن اب بھی پرانی کاپر لائنز یا وائرلیس لنکس پر چل رہی ہے جس سے اسپیڈ اور استحکام دونوں متاثر ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر فائبرآپٹک بچھانے پر سرمایہ کاری نہ بڑھی تو 5 جی کا آغاز صرف نام کا رہ جائے گا۔
مزید پڑھیں: دہائیوں پہلے دنیا کو چیٹنگ کے ذریعے جوڑنے والی کمپنی اے او ایل کا انٹرنیٹ باب بند ہوگیا
ماہرین کے مطابق فریکوئنسی میں اضافے اور انفراسٹرکچر کی اپ گریڈیشن کے بغیر ملک میں انٹرنیٹ کے معیار کو عالمی سطح تک لانا ممکن نہیں۔