سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ ایک سابق وزیراعظم کو خوش آمدید اور دوسرے کو سسیلین مافیا کہنا ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کے خلاف ہے ۔
وی نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں سابق سینیٹر اور قانون دان کہنا تھا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان کو گرفتاری کے بعد ضمانت قبل از گرفتاری دی جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔
“قانون کی نظر میں جو بندہ ریمانڈ پر چلا جاتا ہے اس کا ضمانت کا حق ختم ہو جاتا ہے اور وہ پھر میرٹ پر اپنا کیس ثابت کرے گا کہ وہ غیر معمولی کیس ہے وہ کیس ختم ہو گا، بحث ہو گی تب اس کی ضمانت ہو سکتی ہے مگر کوئی بحث نہیں ہوئی اس کو پہلے نکالا اور پھر گرفتار بندے کو ضمانت قبل از گرفتاری مل گئی جو ہمارے لیے بالکل نئی بات ہے “
سینئر قانون دان کے مطابق عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس میں 9مئی کے پرتشدد واقعات اور فوجی تنصیبات اور افسران کے گھروں پر حملوں کے بعد بجائے ناراضگی کے خان صاحب کو گڈ ٹو سی یو اور جاتے ہوئے گڈ لک بولتے ہیں، اس کا مطلب ہے وہ ان کو شاباش دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 25 اے کے مطابق ہر شہری برابر ہے، اس کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے گا۔ اسی طرح آرٹیکل 4 کے مطابق ہر شہری کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا مگر چیف جسٹس نے امتیازی سلوک برتا۔
” آپ مجھے بتائیں ججوں کے کوڈ آف کنڈکٹ میں لکھا ہے کہ اگر آپ ایک فریق کے ساتھ مسکرائیں گے تو دوسرے فریق کے ساتھ بھی مسکرائیں گے۔ انہوں نے اپنے حلف اور کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔
ایک طرف اسی بنچ میں وہ جج بیٹھے ہیں جو وقت کے وزیراعظم کو سسیلین مافیا کہتے ہیں اور دوسرے کو پاکباز بنا دیتے ہیں تو لوگوں کو نظر آتا ہے۔ جج بادشاہ نہیں ہوتا اس کا حلف ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے لیے خوش آمید اور بچھنا اور وقت کے وزیراعظم (نواز شریف) کو سسیلین مافیا قرار دینا ایک جج کو زیب نہیں دیتا۔
سپریم کورٹ کے 6ججز کی نوکریاں خطرے میں ہیں
سینئیر قانون دان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے 6جونئیر ججز کی تعیناتی میں سینیارٹی کا اصول مدنظر نہیں رکھا گیا، ان کی نوکری خطرے میں ہے، کسی وقت معاملہ اٹھنے پر 6 کے 6 جج جا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سینئر پیونے جج جسٹس قاضی فائزعیسٰی شریف آدمی ہیں ورنہ وہ سعید الزمان صدیقی والا کام بھی کر سکتے ہیں، جنہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس کو سینیارٹی اصول کی بنا پر فارغ کر دیا تھا۔
“پی ایل ڈی 98 سپریم کورٹ 161 کا فیصلہ ان کے پاس موجود ہے جس کے تحت انہوں نے سینیارٹی نہ ہونے پر چیف جسٹس کو نکالا تھا۔ اب بھی سینارٹی کے بغیر جو 6ججز بیٹھے ہوئے ہیں وہ خطرے میں ہیں۔ کسی وقت بھی یہ معاملہ اٹھے گا 6 کے 6ججز جائیں گے۔ “آج بندیال صاحب کے پاس وہی 6جج ہیں جن کے کندھوں پر کھڑے ہیں جو غلط طریقے سے آئے ہیں، جو جونئیر ججز ہیں۔
آرمی کی مداخلت ختم ہوئی تو عدلیہ نے ریاستی توازن بگاڑ دیا
امان اللہ کنرانی کا کہنا تھا کہ آئین میں ریاست کے 3ستونوں کا ذکر ہے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ ان سب کا اپنا اپنا دائرہ کار ہے۔
بدقستمی یہ ہے کہ ہمارے ہاں ماضی میں انتظامیہ جس سے یہاں مراد آرمی ہے، وہ طاقت پر مکمل اختیار حاصل کرلیتی تھی، وہ عدلیہ اور پارلیمنٹ کی طاقت بھی ہتھیا لیتی تھی۔ مگر خوش قسمتی سے جب انہوں نے ہاتھ ہٹا لیے ہیں تو عدلیہ نے یہ سب کچھ سنبھال لیا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ اب خلا ہے تو اس سے ہم فائدہ اٹھائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے توبہ کی ہے اور بظاہر وہ مداخلت نہیں کر رہے تو کمزور رہنے والی اور ایجنسیوں کی تابع رہنے والی عدلیہ نے طاقت پکڑلی لی ہے صرف اس لیے کہ دوسری طرف سے کمزوری ہے تو یہ اپنا لچ تلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا اچھی بات نہیں کہ سپریم کورٹ طاقت ور ہوگئی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ “سپریم کورٹ طاقت ور نہیں ہوئی، متعصب ہو گئی ہے۔ آرٹیکل 63 اے کی جس طرح انہوں نے تشریح کی دنیا میں کہیں نہیں ہوتی۔
آئین میں لکھا ہے کہ منحرف رکن اسمبلی اگر ووٹ دے گا تو اس کی سزا الیکشن کمیشن مقرر کرے گا اور اسے نااہل کیا جائے گا، اس کا طریق کار لکھا ہوا ہے۔ یہی اس کی سزا ہے ۔ مگر یہ کہیں نہیں لکھا کہ اس کا ووٹ شمار نہیں ہو گا۔ عقل کی بات ہے جرم ہو گا ہی نہیں تو سزا کس بات کی؟ کیا بغیر جرم کے سزا دیں گے؟ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک جماعت کا وزیراعلی تبدیل ہو گیا”
پارلیمنٹ سپریم ہے
سابق سینیٹر سے پوچھا گیا کہ پارلیمنٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ چیف جسٹس کو نکال سکے؟ ان کا کہنا تھا کہ غیر معمولی حالات میں ایسا ہوسکتا ہے۔ حال ہی میں چیف جسٹس نے عدالت میں کہا کہ قانون تو اپنی جگہ واضح ہے مگر حالات ایسے ہیں کہ ہم اپنی کارروائی میں آگے نہیں جا سکتے آپ جائیں مذاکرات کریں۔ اس کا مطلب ہے حالات کا اثر ہوتا ہے۔
انہوں نے مثال دی کہ 22مارچ 2009 کو 2سالہ تحریک کے نتیجے میں جسٹس افتخار چوہدری کو ایک نوٹیفیکیشن کے تحت بحال کیا گیا حالانکہ انہیں ہٹا دیا گیا تھا اور جسٹس بندیال کو اس سے پچھلے سال زرداری صاحب نے دوبارہ تعینات کیا تھا حالانکہ دونوں ججز کو برطرف مشرف نے ایک پی سی او کے تحت کیا تھا مگر دونوں کی بحالی الگ الگ طریقے سے ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وہ کیوں تسلیم کیا۔
یہاں سب چلتا ہے جب چلانا ہے تو پارلیمنٹ ایک قرارداد پاس کر دے۔ اگر پارلیمنٹ ایک ریفرنس فائل کردے سپریم جوڈیشل کونسل میں تو پھر اس کے اجلاس کی صدارت بندیال صاحب نہیں کر سکتے، اسے جسٹس فائز عیسی نے ہی چئیر کرنا ہے۔
سابق سینیٹر کا کہنا تھا کہ جب پارلیمنٹ نے ایک قانون بنایا سوموٹو کے حوالے سے تو اسے معطل کر دیا گیا۔ اب لوگوں کے پاس اور کیا رہ جاتا ہے کہ وہ اپنی آواز گلے پھاڑ کر سپریم کورٹ کے سامنے اٹھائیں کیونکہ عدالتوں میں تو آپ نہیں سنتے۔ آپ نے 25 لوگوں کو نہیں سنا۔ آپ نے سیاسی جماعتوں کو نہیں سنا۔ آپ 4ججوں کے فیصلے کو بدل رہے ہیں۔ 3،3بنچ بدل رہے ہیں ۔ آئین کے آرٹیکل 176 کے مطابق چیف جسٹس نہیں بلکہ سپریم کورٹ کا ذکر ہے۔ سپریم کورٹ کا مطلب چیف جسٹس اور ججز۔