غزہ میں جنگ بندی بدستور برقرار ہے جہاں امدادی سامان کی فراہمی بحال ہوچکی ہے، جبکہ اسرائیل 48 یرغمالیوں کی رہائی کی تیاری کر رہا ہے جن میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے عہدیداروں کے مطابق، جنگ بندی کے بعد غزہ میں طبی سامان، ایندھن اور دیگر ضروری اشیاء دوبارہ داخل ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ اسرائیلی فوج اپنی مقررہ لائن تک پیچھے ہٹ چکی ہے جس کے بعد حماس کو باقی 48 یرغمالیوں (جن میں 28 کی لاشیں شامل ہیں) کی رہائی کے لیے 72 گھنٹوں کی مہلت دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا تاریخی معاہدہ طے پاگیا
اس وقت غزہ میں کوئی جھڑپ جاری نہیں جس کے باعث شہری تباہ حال علاقوں میں واپس لوٹنا شروع ہوگئے ہیں۔
امن معاہدے کا پہلا مرحلہ
رپورٹس کے مطابق، اسرائیل نے تقریباً 250 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے اور مقتول اسرائیلی شہریوں کے اہل خانہ کو اس فیصلے سے آگاہ کردیا گیا ہے۔ اسرائیلی افواج کا جزوی انخلا اور یرغمالیوں و قیدیوں کا تبادلہ امن معاہدے کے پہلے مرحلے کا حصہ ہیں۔
امکان ہے کہ اسرائیل پیر کے روز یرغمالیوں کی واپسی کا عمل شروع کرے گا۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ جنگ بندی کے لیے حماس کے 6 اہم مطالبات سامنے آ گئے
دوسری جانب، حماس، اسلامی جہاد اور عوامی محاذ برائے آزادیِ فلسطین کے رہنماؤں نے کسی بھی غیر ملکی امن فوج کی تعیناتی کو مسترد کر دیا ہے۔ تاہم امریکا ان ممالک میں شامل ہے جو غزہ میں قیامِ امن کے عمل کی نگرانی کریں گے۔
غزہ میں ہلاکتوں کی تحقیقات کا مطالبہ
غزہ کے حکام نے اسرائیلی جنگی جرائم اور مبینہ نسل کشی کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ حماس کے زیرانتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق دو سالہ جنگ میں تقریباً 67 ہزار فلسطینی ہلاک اور 1 لاکھ 70 ہزار زخمی ہوئے۔