فیکٹ چیک: ’پولیس نے برہنہ کر کے تشدد کیا، پی ٹی آئی کی خاتون ورکر‘ کی ویڈیو کی حقیقت کیا؟

بدھ 17 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عمران خان کی گرفتاری کے بعد احتجاج سے نمٹنے کے لیے بند کیا گیا انٹرنیٹ گزشتہ روز بحال ہوا تو کئی ایسے مناظر وائرل ہوئے جن میں کہیں پولیس کو مظاہرین پر تشدد کرتے اور کہیں پی ٹی آئی کے مظاہرین کو حساس مقامات تباہ کرتے دکھایا گیا ہے۔

انہی مناظر میں ایک ایسی ویڈیو بھی شامل ہے جو دو حصوں میں شیئر کی گئی ہے۔ ابتدائی حصے میں پولیس اہلکار ایک خاتون کو دھکا دے کر آگے لے جاتے دکھائے گئے ہیں اور دوسرے میں ایک جواں سال لڑکی پولیس حراست کی تفصیل بتاتی ہے۔

دوپٹہ اوڑھے دکھائی گئی لڑکی کے مطابق ’انہوں نے کہا اس کو ننگا کرو، میرا دوپٹہ ہٹایا کپڑے اتارے، سب کے سامنے مجھے ننگا کرا اور مارا ہے۔‘

خود کو عمران خان کا سپورٹر بتانے والے متعدد اکاؤنٹس نے یہ ویڈیو شیئر کی تو حکومت اور انتظامی و سیکیورٹی اداروں کو مظاہرین سے غیرانسانی سلوک کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

ایسی ہی ایک ٹویٹ جو تقریبا دس لاکھ لوگوں نے دیکھی، لائک، ری ٹویٹ اور ریپلائی کے ساتھ مذکورہ خاتون سے منسوب کر کے لکھا گیا کہ ’پنجاب پولیس نے میرے کپڑے اتارے اور سب کے سامنے مجھے مارا۔ یہ کہانی متاثرہ فرد کی ہے جس نے ریاستی درندگی کا سامنا کیا۔ اس کا جرم جمہوریت کی حمایت اور آزاد ومنصفانہ الیکشن کا مطالبہ تھا۔‘

reality of a PTI propegated video about police police torture on pti female worker

ویڈیو پر ردعمل دینے والے ٹوئپس نے کہیں اپنے حامیوں کو پنجاب پولیس کے خلاف کارروائی پر ابھارا تو کوئی بین الاقوامی اداروں کو مینشن کرتے ہوئے صورتحال کا نوٹس لینے اور پابندیوں کی سفارش کرتا رہا۔

کچھ افراد مزید آگے بڑھے تو پاکستانی فوج کے سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں اور ان کے اہلخانہ کو دھمکیاں تک دے ڈالیں۔

pti workers threatening pak army chief and pmویڈیو شیئر کرنے والے افراد نے ’پی ٹی آئی کی خاتون ورکر کو پولیس حراست میں برہنہ کر کے تشدد‘ کا الزام لگایا تاہم یہ معاملہ خلاف حقیقت نکلا۔

ویڈیو میں بات کرنے والی خاتون کو ’پی ٹی آئی ورکر‘ کہا گیا تاہم حقیقت میں وہ ’شوہر کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزمہ‘ اور ویڈیو بھی ’ایک سال پرانی‘ نکلی۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی عرین کو فروری 2022 میں اس الزام کے تحت گرفتار کیا گیا تھا کہ ملزمہ نے اپنے آشنا کے ساتھ مل کر شوہر کو زہر دیا ہے۔

فروری 2022 میں سامنے آنے والے ویڈیو بیان میں ملزمہ کا کہنا تھا کہ گلشن اقبال پولیس نے دوران تفتیش ’مجھے سب کے سامنے برہنہ کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔‘

https://twitter.com/RegnlTelegraph/status/1496146026973040649

اسی دوران ٹائم لائنز پر شیئر ہونے والی ’فیک نیوز‘ میں نمایاں ترین وہ ٹویٹ رہی جس میں برطانیہ میں مقیم پاکستانی ’میجر (ر) عادل راجہ پی ٹی آئی مظاہرین کو ’آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر جانے اور عمران خان کی جان بچانے‘ کا کہہ رہے ہیں۔

adil raja instigating people to attack on isi headquarter

میجر (ر) عادل راجہ کی ٹوئٹ پر گفتگو کرنے والے متعدد افراد نے نشاندہی کی اور بعد میں خود عمران خان نے بھی بتایا کہ انہیں گرفتار کر کے نیب راولپنڈی کے دفتر اور بعد ازاں پولیس لائنز میں رکھا گیا تھا۔

البتہ کچھ افراد نے یہ نشاندہی ضرور کی کہ جب سپریم کورٹ سے رہائی مگر تحویل میں رکھے جانے کے حکم کے بعد عمران خان کو مرسڈیز میں وہاں سے لے جایا گیا تو وہ کئی گھنٹوں کے بعد پولیس لائنز پہنچے۔ اس دوران وہ کیوں اور کہاں رہے کا جواب سامنے نہیں آ سکا۔

مختلف ٹویپس کی پسندیدہ مگر غلط خبروں کی شیئرنگ کا سلسلہ مزید آگے بڑھا تو حکمراں اتحاد میں شامل جے یو آئی کے ایک ورکر نے ’بریکنگ نیوز‘ دی۔ جس کے مطابق ماضی میں جے یو آئی ف گروپ کو چھوڑ کر الگ ہو جانے اور پھر پی ٹی آئی سے اتحاد کرنے والے بلوچستان کے مولانا خان محمد شیرانی گروپ نے بھی پی ٹی آئی سے اتحاد ختم کر دیا ہے۔

https://twitter.com/IhsanMarwat_786/status/1658543752590286852

کئی گھنٹے تک مختلف سرکلز میں شیئر ہونے والی یہ خبر اس وقت غلط ثابت ہوئی جب  خان محمد شیرانی کے قریبی ساتھی اسماعیل حسنی نے خبر کی تردید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی اتحاد برقرار ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp