عمران خان کی گرفتاری کے بعد احتجاج سے نمٹنے کے لیے بند کیا گیا انٹرنیٹ گزشتہ روز بحال ہوا تو کئی ایسے مناظر وائرل ہوئے جن میں کہیں پولیس کو مظاہرین پر تشدد کرتے اور کہیں پی ٹی آئی کے مظاہرین کو حساس مقامات تباہ کرتے دکھایا گیا ہے۔
انہی مناظر میں ایک ایسی ویڈیو بھی شامل ہے جو دو حصوں میں شیئر کی گئی ہے۔ ابتدائی حصے میں پولیس اہلکار ایک خاتون کو دھکا دے کر آگے لے جاتے دکھائے گئے ہیں اور دوسرے میں ایک جواں سال لڑکی پولیس حراست کی تفصیل بتاتی ہے۔
دوپٹہ اوڑھے دکھائی گئی لڑکی کے مطابق ’انہوں نے کہا اس کو ننگا کرو، میرا دوپٹہ ہٹایا کپڑے اتارے، سب کے سامنے مجھے ننگا کرا اور مارا ہے۔‘
خود کو عمران خان کا سپورٹر بتانے والے متعدد اکاؤنٹس نے یہ ویڈیو شیئر کی تو حکومت اور انتظامی و سیکیورٹی اداروں کو مظاہرین سے غیرانسانی سلوک کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
ایسی ہی ایک ٹویٹ جو تقریبا دس لاکھ لوگوں نے دیکھی، لائک، ری ٹویٹ اور ریپلائی کے ساتھ مذکورہ خاتون سے منسوب کر کے لکھا گیا کہ ’پنجاب پولیس نے میرے کپڑے اتارے اور سب کے سامنے مجھے مارا۔ یہ کہانی متاثرہ فرد کی ہے جس نے ریاستی درندگی کا سامنا کیا۔ اس کا جرم جمہوریت کی حمایت اور آزاد ومنصفانہ الیکشن کا مطالبہ تھا۔‘
ویڈیو پر ردعمل دینے والے ٹوئپس نے کہیں اپنے حامیوں کو پنجاب پولیس کے خلاف کارروائی پر ابھارا تو کوئی بین الاقوامی اداروں کو مینشن کرتے ہوئے صورتحال کا نوٹس لینے اور پابندیوں کی سفارش کرتا رہا۔
کچھ افراد مزید آگے بڑھے تو پاکستانی فوج کے سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں اور ان کے اہلخانہ کو دھمکیاں تک دے ڈالیں۔
ویڈیو شیئر کرنے والے افراد نے ’پی ٹی آئی کی خاتون ورکر کو پولیس حراست میں برہنہ کر کے تشدد‘ کا الزام لگایا تاہم یہ معاملہ خلاف حقیقت نکلا۔
ویڈیو میں بات کرنے والی خاتون کو ’پی ٹی آئی ورکر‘ کہا گیا تاہم حقیقت میں وہ ’شوہر کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزمہ‘ اور ویڈیو بھی ’ایک سال پرانی‘ نکلی۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی عرین کو فروری 2022 میں اس الزام کے تحت گرفتار کیا گیا تھا کہ ملزمہ نے اپنے آشنا کے ساتھ مل کر شوہر کو زہر دیا ہے۔
فروری 2022 میں سامنے آنے والے ویڈیو بیان میں ملزمہ کا کہنا تھا کہ گلشن اقبال پولیس نے دوران تفتیش ’مجھے سب کے سامنے برہنہ کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔‘
https://twitter.com/RegnlTelegraph/status/1496146026973040649
اسی دوران ٹائم لائنز پر شیئر ہونے والی ’فیک نیوز‘ میں نمایاں ترین وہ ٹویٹ رہی جس میں برطانیہ میں مقیم پاکستانی ’میجر (ر) عادل راجہ پی ٹی آئی مظاہرین کو ’آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر جانے اور عمران خان کی جان بچانے‘ کا کہہ رہے ہیں۔
میجر (ر) عادل راجہ کی ٹوئٹ پر گفتگو کرنے والے متعدد افراد نے نشاندہی کی اور بعد میں خود عمران خان نے بھی بتایا کہ انہیں گرفتار کر کے نیب راولپنڈی کے دفتر اور بعد ازاں پولیس لائنز میں رکھا گیا تھا۔
البتہ کچھ افراد نے یہ نشاندہی ضرور کی کہ جب سپریم کورٹ سے رہائی مگر تحویل میں رکھے جانے کے حکم کے بعد عمران خان کو مرسڈیز میں وہاں سے لے جایا گیا تو وہ کئی گھنٹوں کے بعد پولیس لائنز پہنچے۔ اس دوران وہ کیوں اور کہاں رہے کا جواب سامنے نہیں آ سکا۔
عمران خان کل 6 بجے سپریم کورٹ سے نکلے دس منٹ کی مسافت ساڑھے پانچ گھنٹے طے کرکے رات ساڑھے گیارہ بجے پولیس لائنز پہنچے۔ پونے بارہ صدر مملکت ملنے آئے۔ ذرائع
یہ ساڑھے پانچ گھنٹے انھوں نے کہاں گزارے کسی کو معلوم نہیں۔
نوٹ عمران خان کے رات ساڑھے گیارہ بجے پہنچنے کی ویڈیو موجود ہے۔
— Bashir Chaudhary (@Bashirchaudhry) May 12, 2023
مختلف ٹویپس کی پسندیدہ مگر غلط خبروں کی شیئرنگ کا سلسلہ مزید آگے بڑھا تو حکمراں اتحاد میں شامل جے یو آئی کے ایک ورکر نے ’بریکنگ نیوز‘ دی۔ جس کے مطابق ماضی میں جے یو آئی ف گروپ کو چھوڑ کر الگ ہو جانے اور پھر پی ٹی آئی سے اتحاد کرنے والے بلوچستان کے مولانا خان محمد شیرانی گروپ نے بھی پی ٹی آئی سے اتحاد ختم کر دیا ہے۔
https://twitter.com/IhsanMarwat_786/status/1658543752590286852
کئی گھنٹے تک مختلف سرکلز میں شیئر ہونے والی یہ خبر اس وقت غلط ثابت ہوئی جب خان محمد شیرانی کے قریبی ساتھی اسماعیل حسنی نے خبر کی تردید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی اتحاد برقرار ہے۔